سے ۶۴۳ھ تک ایک سو ایک برس قائم رہی۔
اتابکان فارس :
ترکوں کے ایک گروہ کا سردار سلغر نامی ایک ترک تھا، وہ طغرل بیگ سلجوقیوں کے ہمراہیوں میں شامل ہو گیا، اس کی اولاد میں سنقر بن مودود نے ۵۴۳ھ میں فارس پر قبضہ کیا۔ اس کے خاندان میں ۶۸۶ھ تک فارس کی حکومت رہی، اسی خاندان کا ایک باشادہ اتابک سعد خوارزم شاہ کا خراج گذار بن گیا تھا، اسی کے نام پر شیخ مصلح الدین شیرازی نے اپنا تخلص سعدی رکھا تھا، اتابک سعد کے بعد اتابک ابوبکر تخت نشین ہوا، اس نے اکتائی خان مغل کی اطاعت اختیار کر لی تھی، اسی اتابک ابو بکر کا ذکر شیخ سعدی نے گلستاں میں کیا ہے۔
اتابق ترکستان:
اس خاندان کا بانی اتابک طاہر تھا جو اتابکان فارس کا ایک فوجی سردار تھا، جس سال سنقر بن مودود نے فارس پر قبضہ کیا اسی سال ابو طاہر کو ترکستان پر قبضہ کرنے کے لیے بھیجا تھا، چنانچہ ۵۴۳ھ میں ابو طاہر نے ترکستان پر قبضہ کر کے اپنی حکومت کی بنیاد قائم کی، جو ۷۴۰ھ تک قائم رہی، اسی خاندان کا ایک شعبہ لرستان کوچک پر دسویں صدی ہجری تک حکومت کرتا رہا۔
اتابکان خوازرم شاہیہ:
بلگاتگین غزنوی کا ایک ترکی غلام انوشتگین تھا جو سلطان ملک شاہ سلجوقی کا آب دار ہو گیا تھا، اس کو ملک شاہ نے خوارزم یعنی خیوا کا حاکم مقرر کیا تھا، اس کے بعد اس کا جانشین اس کا بیٹا ہوا، جس کا نام خورازم شاہ تھا، اس نے اپنی حکومت کو ترقی دی، دریائے جیحوں کے کنارے تک اپنی حکومت کو وسعت دے کر خراسان واصفھان کو بھی فتح کر لیا، خوارزم شاہ کے بیٹے علاء الدین محمد نے ۶۰۷ھ میں بخارا و سمرقند بھی فتح کر لیا، ۶۱۱ھ میں افغانستان کے ایک بڑے حصہ کو غزنین تک فتح کر لیا، پھر اس نے شیعہ مذہب اختیار کر کے یہ ارادہ کیا کہ خلافت عباسیہ کو بیخ و بن سے اکھیڑ کر نیست و نابود کر دے، ابھی اس ارادے میں کامیاب نہ ہونے پایا تھا کہ چنگیز خان نے حملہ کر کے اسے اپنی طرف متوجہ کر لیا، آخر مغلوں نے اس کی خوب پریشان کیا اور وہ ان کے سامنے سے بھا گتا اور فرار ہوتا پھرا، آخر بحیرہ قزوین کے ایک جزیرے میں ۶۱۷ھ میں مر گیا۔
اس کے تین بیٹے تھے، وہ بھی باپ کے بعد مغلوں کے آگے آگے بھاگتے پھرے، ایک بیٹا جلال الدین خوارزمی بھاگ کر ہندوستان بھی آیا اور دو برس ہندوستان میں رہ کر پھر واپس چلا گیا، آخر ۶۲۸ھ
|