Maktaba Wahhabi

527 - 868
اب خلیفہ مہدی کی حکومت و خلافت میں بربریوں اور فوجی آدمیوں کا اقتدار حد سے زیادہ بڑھ گیا۔ اور خلافت کی باگ یک لخت فوجی لوگوں کے ہاتھ میں آ گئی۔ ان لوگوں نے رعایا پر تشدد شروع کیا رعایا نے تنگ آکر خلیفہ مہدی سے شکایت کی۔ مہدی سے رعایا کی فریاد کو اس لیے نہ سنا کہ وہ بربریوں کو ناراض کرنا خلاف مصلحت سمجھتا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اہل قرطبہ میں جو لوگ مہدی کے طرف دار اور اس کو تخت خلافت پر بٹھانے میں سر گرم رہے تھے سب ناراض ہو گئے اور اس تکلیف دہ حکومت سے آزاد ہونے کی تدبیریں سوچنے لگے۔ بربریوں کی زیادتیوں سے تنگ آکر اہل شہر نے بربریوں کے چند شخصوں کو قتل کر دیا۔ خلیفہ مہدی نے ان قاتلوں کو قصاص میں قتل کیا۔ اس طرح رعایا کی ناراضگی دن بدن ترقی کرتی گئی۔ مہدی کے خلاف سازش: ادھر خلیفہ مہدی بربریوں سے بھی بد دل ناخوش اور فوجیوں کے اس اقتدار کو مضر سلطنت سمجھ کر خفیہ طور پر ان کا زور توڑنے کی تدبیروں میں مصروف تھا اتفاقاً اہل لشکر یعنی بربریوں کو اس بات کا علم ہو گیا کہ خلیفہ ہماری تباہی اور بربادی کی فکر میں ہے۔ انہوں نے یہ سنتے ہی خاندان خلافت کے ایک شہزادے ہشام بن سلیمان بن عبدالرحمن ثالث کو تخت خلافت پر بٹھانے اور مہدی کے معزول کرنے کی سازش کی۔ اس سازش کا حال مہدی کو معلوم ہوا تو اس نے فتنے کے برپا ہونے سے پہلے ہی ہشام بن سلیمان اور اس کے بھائی ابوبکر دونوں کو گرفتار کر کے اپنے ہاتھ سے قتل کیا۔ سلیمان بن حکم کی خلافت: ان دونوں کے مقتول ہونے کی خبر سن کر ایک اموی شہزادہ سلیمان بن حکم اپنی جان بچا کر قرطبہ سے بھاگا۔ قرطبہ سے باہر بربری لوگ جمع ہو رہے تھے اور اس فکر میں تھے کہ اب کس کو تخت خلافت کے لیے منتخب کیا جائے۔ سلیمان بن حکم کو آتا ہوا دیکھ کر سب خوش ہو گئے اور اس کو خلیفہ بنا کر ’’مستعین باللہ‘‘ کا خطاب دیا اور قرطبہ پر حملہ کرنے کی ترغیب دی سلیمان بن حکم نے کہا کہ ہماری طاقت ابھی اس قابل نہیں ہے کہ قرطبہ کو فتح کر سکیں ۔ مناسب یہ ہے کہ طاقت کو اول بڑھایا جائے یہ سوچ کر سلیمان بن حکم المخاطب بہ مستعین باللہ بربریوں کو لیے ہوئے طلیطلہ پہنچا اور احمد بن نصیب کو اپنا وزیر اعظم بنایا اس کے بعد مستعین نے مدینہ سالم کے حاکم واضح عامری سے خط و کتابت کر کے اس کو اپنے ساتھ شامل کرنا چاہا۔ لیکن واضح عامری اس سے پیشتر خلیفہ مہدی کی بیعت کر چکا تھا لہٰذا اس نے صاف انکار کیا۔
Flag Counter