تھا قلعہ الموت کا حاکم اور حسن بن صباح کا جانشین قرار دیا گیا۔ کیا بزرگ امید کے خاندان میں یہ حکومت ۶۵۵ھ تک قائم رہی۔ کیا بزرگ امید کے بعد اس کا بیٹا محمد بن کیا بزرگ امید اس کے بعد اس کا بیٹا حسن بن محمد اس کے بعد اس کا بیٹا محمد ثانی بن حسن اس کے بعد جلال الدین محمد ثانی ملقب بہ حسن ثالث اس کے بعد علاؤ الدین محمد بن جلال الدین محمد اس کے بعد رکن الدین خور شاہ بن علاؤالدین حکمران ہوا۔
رکن الدین خور شاہ:
رکن الدین خور شاہ فدائیوں کا آخری بادشاہ تھا جس کو ہلاکو خان چنگیزی نے بربادی بغداد سے ایک سال پیشتر ۶۵۵ھ میں گرفتار کر کے فدائیوں کی دولت و حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ حسن بن صباح کے بعد قلعہ الموت اور اس کے مضافات پر فدائیوں کی حکومت قائم رہی مگر سو سال تک وہ اپنی مملکت میں کوئی ترقی اور وسعت پیدا نہیں کر سکے۔ جب چنگیز خان تاتاریوں کے وحشی گروہ کو لے کر ممالک اسلامیہ کو تاخت و تاراج کرنے لگا تو ان فدائیوں نے بھی ہاتھ پاؤں نکالے اور اپنے رقبہ حکومت کو وسیع کرنا شروع کیا۔ لیکن ابھی یہ پورے طور پر اپنے حوصلے نہ نکال چکے تھے کہ جلال الدین بن علاؤ الدین خوارزم شاہ نے ان پر چڑھائی کر کے ان کے زور و قوت کو توڑ دیا اور قلعہ الموت میں ان کو محصور کر کے تمام دوسرے قلعوں کو ان سے چھین کر ویران و منہدم کر دیا اور دولت فدائیہ کی حالت بہت ہی سقیم ہو گئی آخر ہلاکو خان نے اس مریض نیم جان کو قید ہستی سے آزاد کیا۔
فدائیوں کے مقتولین:
ان ملحد فدائیوں کے ہاتھ سے جو لوگ قتل ہوئے ان میں خواجہ نظام الملک طوسی، وزیر اعظم سلطان الپ ارسلان و ملک شاہ سلجوقی، فخر الملک بن خواجہ نظام الملک، جناب شمس تبریزی پیر طریقت مولوی رومی نظام الملک معود بن علی خوارزم شاہ، سلطان شہاب الدین غوری اور بعض عیسائی سلاطین یورپ خاص طور پر قابل تذکرہ ہیں ۔ سلطان صلاح الدین ایوبی اور حضرت امام فخر الدین رازی کو بھی ملاحدہ نے قتل کی دھمکی دی تھی مگر وہ بچ گئے۔ وللّٰہ الحمد
|