ہوئے ڈرتے تھے کہ کہیں ہماری نیک چلن پر کوئی اعتراض ہو کر ہماری شہادت مسترد نہ ہو جائے۔
دارالقضاۃ:
ہر ایک شہر کا قاضی اس شہر کا جج، مجسٹریٹ اور منصف ہوتا تھا، اگر اس شہر کے عامل یا گورنر پر بھی کوئی شخص دعویٰ دائر کر دیتا تھا تو اس گورنر کو معمولی مدعا علیہ کی حیثیت سے قاضی کی عدالت میں حاضر ہونا اور ثبوت پیش کرنا پڑتا تھا۔
غیر مسلموں کے لیے انہیں کی قوم و مذہب کے منصف مقرر تھے جن کی کچہری میں ان کے مقدمات فیصل ہوتے تھے، ان غیر مسلم منصفوں کی عدالت میں غیر مسلموں کے تمام دیوانی اور آپس کے فوج داری مقدمات طے ہو جاتے تھے، لیکن اگر ایک فریق غیر مسلم ہو تو اس حالت میں فریقین رضا مندی سے جس عدالت میں چاہیں اپنا مقدمہ لے جائیں ، لیکن ایسے مقدمات کا مرافعہ قاضی کے یہاں ہو سکتا تھا، عام طور پر غیر مسلم اپنے مقدمات بھی قاضی ہی کی عدالت میں فیصلہ کرانا چاہتے تھے اور ان کو کسی قسم کی شکایت نہ ہوتی تھی۔
سلطنت کے عام حالات :
حکومت کی طرف سے رعایا کے طرز زندگی اور آپس کے تعلقات میں قطعاً کوئی دخل نہیں دیا جاتا تھا، شہروں اور قصبوں کے اندرونی انتظامات بھی سب باشندگان شہر کے اختیار میں تھے، وہ خود ہی آپس میں آزادانہ اپنی حفاظت کی تدبیریں کرتے اور اگر ایک عامل سے ناراض ہو جاتے تو اس کے وہاں سے تبدیل کرنے کی درخواست خلیفہ کی خدمت میں بھجواتے، اور خلیفہ عموماً ان کی درخواست منظور کر لیتا، اور کسی شہر کا عامل شہر والوں کی رضا مندی کے بغیر مقرر نہ کیا جاتا، ہر ایک شہر کے باشندے بجائے خود ایک فوجی طاقت رکھتے تھے، بسا اوقات ایسا ہوا ہے کہ کسی شہر کے عامل کا کسی فوج نے محاصرہ کر لیا ہے، وہ اپنی سرکاری فوج سے دشمن کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے، لیکن شہر والوں نے محاصر دشمن سے مصالحت کر لی ہے تو اس عامل کو مجبوراً شہر چھوڑ کر چلا جانا پڑا ہے۔
شہریوں کے حقوق کو پامال کرنے کی حکام کو عموماً جرائت نہ ہوتی تھی، معمولی سے معمولی آدمی بھی بڑے سے بڑے حاکم بلکہ خلیفہ تک پہنچ سکتا تھا اور جو کچھ اس کے جی میں آئے کہہ گزرتا تھا، خلفاء عموماً اپنے آپ کو ہر دل عزیز اور نافع الناس ثابت کرنے کی کوشش کرتے تھے، علوم و فنون کی قدردانی عام طور پر خلفائے عباسیہ نے بہت کی ہے۔
|