Maktaba Wahhabi

566 - 868
اور مصیبت رہی کہ ہر ایک مسلمان رئیس دوسرے مسلمان رئیس کو برباد و تباہ کرانے کے لیے عموماً عیسائی بادشاہ کو چڑھا کر لاتا اور اس برادر کشی کے کام سے فارغ ہو کر اپنی مملکت کے بعض شہرو قلعے عیسائی بادشاہ کی نذر کر دیتا۔ عیسائی بہت خوش ہوتے اور مسلمانوں کی اس نالائقی کو اطمینان کی نظر سے دیکھتے تھے کہ ہمارا مقصود خود بخود حاصل ہو رہا ہے۔ ریاست بنو ہود محمد بن یوسف : ۵۰۳ھ میں احمد مستعین بن ابو عامر یوسف موتمن بن ابو جعفر بن ہود عیسائیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے سرقسطہ کے سامنے شہید ہوا تھا۔ یہ شاہان سرقسطہ میں چوتھا بادشاہ تھا اس کی اولاد میں محمد بن یوسف ایک شخص تھا جو موحدین کی حکومت کے آخری ایام میں اندلس کے اندر رئیسانہ زندگی بسر کرتا تھا۔ اس نے جب دیکھا کہ شیرازہ سلطنت ڈھیلا ہو گیا ہے تو وہ قزاقوں کے ایک گروہ میں شامل ہو کر ان کا سردار بن گیا اور رفتہ رفتہ اپنی جمعیت کو بڑھا کر مرسیہ کے عامل ابو العباس کو شکست دے کر مرسیہ پر قابض ہو گیا اور بہت جلد غرناطہ، مالقہ، المیریہ وغیرہ پر قابض ہو کر ۶۲۵ھ میں موحدین کے بادشاہ مامون کو اندلس سے خارج کر کے قرطبہ وغیرہ پر بھی قابض و متصرف ہو گیا۔ ۶۲۶ھ میں قریباً تمام اسلامی اندلس اس کے زیر فرمان ہو گیا۔ اسی سال برشلونہ کے عیسائی بادشاہ نے جزیرہ میورقہ و منورقہ کو فتح کر کے موحدین کے عاملوں کو وہاں سے خارج کر دیا۔ محمد بن یوسف کی اس مثال کو دیکھ کر ملک میں اور بھی باحوصلہ سردار اٹھ کھڑے ہوئے اور ہر ایک اپنی اپنی الگ حکومت قائم کرنے کی تدابیر میں مصروف ہو گیا۔ محمد بن یوسف نے یہ دیکھ کر کہ تمام سرداروں پر غالب آنا اور اپنی حکومت پر تمام رعایا کو رضا مند کر لینا آسان کام نہیں ہے۔ ایک درخواست عباسی خلیفہ بغداد کی حکومت میں روانہ کی اور لکھا کہ میں نے آپ کے نام سے تمام ملک اندلس فتح کر لیا ہے اور میری حکومت یہاں قائم ہو گئی ہے۔ لہٰذا نہایت ادب کے ساتھ ملتجی ہوں کہ مجھ کو اس ملک کا والی مقرر فرمایا جائے اور اس ملک کی سند حکومت میرے نام کی بھیج دی جائے۔ خلیفہ بغداد نے اس درخواست کو تائید غیبی سمجھ کر اندلس کی سند حکومت مع خلعت محمد بن یوسف کے سفیر کو عطا کر دی۔ جب خلیفہ بغداد مستنصر کے پاس سے سند امارت آ گئی تو ابن ہود یعنی محمد بن یوسف نے غرناطہ کی جامع مسجد میں لوگوں کو جمع ہونے کا حکم دیا اور خود عباسی خلیفہ کا خلعت پہن کر اور سیاہ علم ہاتھ میں لے کر آیا اور لوگوں کو خلیفہ مستنصر عباسی کا فرمان پڑھ کر سنایا اور تمام مسلمانوں کو مبارکباد دی کہ خلیفہ نے ہماری درخواست کو منظور فرما کر ہماری سر پرستی منظور فرما لی ہے۔ اس تدبیر کا یہ اثر ہوا کہ چند روز کے لیے نصر بن یوسف معروف بہ ابن الاحمر اور ابوجمیل زیان بن مردنیش وغیرہ امراء نے جو ابن ہود یعنی محمد بن یوسف کی
Flag Counter