ہلاکو خان مراغہ کی طرف متوجہ ہوا۔ وہاں سے زر و جواہر کے انبار اور لونڈی غلام قطار در قطار منکو خان کی خدمت میں قراقورم کی طرف روانہ کیے۔ اتابک سعدبن ابوبکر حاکم فارس اور بدرالدین لولو حاکم موصل اور سلطان عز الدین سلجوقی حاکم روم نے حاضر ہو کر اظہار اطاعت کیا۔ بروزجمہ ۲۰ رمضان المبارک ۶۵۷ھ کو ہلاکو خان نے کئی نامور سرداروں کو فوج دے کر بطور ہر اول ملک شام کی طرف روانہ کیا۔ نصیبین، حران، حلب وغیرہ شہروں کو فتح اور ان کے باشندوں کا قتل عام کرتا ہوا دمشق کی جانب پہنچا۔ دمشق کو بھی اسی طرف فتح کیا اور ملک شام پر قابض ہو کر اور وہاں اپنی طرف سے ایک حاکم کسوقا نامی کو مقرر کر کے ہلاکو خان خراسان کی طرف واپس آیا۔ مصری لشکر نے ملک شام پر حملہ کر کے مغلوں کی فوج کو شکست دے کر بھگا دیا۔ اس خبر کو سن کر ہلاکو خان بہت رنجیدہ ہوا اور ارادہ کیا کہ ملک شام پر فوج کشی کر کے مصریوں کو شام سے نکالے، مگر اسی اثناء میں منکو خان کے فوت ہونے کی خبر پہنچی اور انہیں ایام میں ایک اور واقعہ پیش آیا کہ برکہ خان ابن جوجی خان بادشاہ قبچاق اور ہلاکو خان کے درمیان مخالفت اور ناچاقی پیدا ہوئی۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ہلاکو خان کے پاس برکہ خان کا کوئی قریبی رشتہ دار تھا۔ اس کو ہلاکو خان نے قتل کر دیا برکہ خان نے سن کر کہا کہ ہلاکو خان نے خلیفہ بغداد کو قتل کیا اور بلاوجہ لاکھوں مسلمانوں کا خون بہا دیا۔ میں اس سے ان تمام بے گناہوں کا انتقام لوں گا۔ یہ کہہ کر اس نے فوج روانہ کی۔ ادھر سے ہلاکو خان نے بھی اس کے مقابلہ کو فوج بھیجی۔ ۶۶۰ھ میں جنگ ہوئی اور ہلاکو خان کی فوج نے شکست پائی۔ اس کے بعد لڑائیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ آخر ۶۶۱ھ میں ہلاکو خان خود فوج لے کر برکہ خان کے مقابلے پر آیا۔ جنگ عظیم کے بعد برکہ خان کی فوج کو شکست ہوئی اور ہلاکو خان نے فتح پائی۔ مگر چند ہی روز کے بعد برکہ خان نے ہلاکو خان پر حملہ کر کے اس کو شکست فاش دی۔ اس شکست سے ہلاکو خان بہت دل شکستہ ہوا۔ اسی عرصہ میں امیر ایچل نے مراغہ میں وفات پائی۔ جب مغلوں نے ملک شام کو فتح کر لیاتھا تو وہاں قوم فراتاتار کے قبیلوں کو آباد کیا تھا۔
ہلاکو خان کی موت:
اب برکہ خان سے شکست پانے کے بعد ہلاکو خان نے ایک سردار کو شام کی طرف روانہ کیا کہ وہ فراتاتار کے قبائل کو ہمراہ لے کر آئے تاکہ ان لوگوں کی فوج برکہ خان کے مقابلہ پر روانہ کی جائے۔ وہ سردار ملک شام میں جا کر اور فراتاتار کے لوگوں کو اپنے ہمراہ لے کر ہلاکو خان سے باغی ہو گیا۔ یہ خبر مراغہ میں ہلاکو خان کو پہنچی تو وہ اس قدر غمگین و افسردہ ہوا کہ مرض سکتہ میں مبتلا ہو کر ۶۶۳ھ آخر ماہ ربیع الاول کو
|