ابراہیم بن اغلب کی حکومت تسلیم کر لی اس طرح ابراہیم بن اغلب اور ادریس اصغر کے درمیان چند روز تک کشمکش جاری رہی۔ آخر ادریس اصغر اور ابراہیم بن اغلب کے درمیان صلح ہو گئی۔ اور مراکش کا ملک ہر طرح خلافت عباسیہ سے بے تعلق ہو گیا اور وہاں ایک مستقل ادریسیہ سلطنت قائم ہو گئی۔
محمد بن ادریس:
۲۱۳ھ میں ادریس اصغر نے وفات پائی اور اس کا بیٹا محمد اپنے باپ کی جگہ تخت نشین ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ادریس اول کا حقیقی بھائی سلیمان بن عبداللہ بن حسن مثنیٰ بن حسن بن علی بن ابی طالب مصر و افریقہ میں ہوتا ہوا تلمسان پہنچ گیا تھا۔ اس نے جب اپنے آپ کو ادریس اول کا حقیقی بھائی ظاہر کیا تو وہاں کے بربری قبائل نے بخوشی اس کی بیعت کر لی اور اس کی حکومت تلمسان میں قائم ہو گئی۔
ادھر ادریس اصغر کی ماں اور محمد بن ادریس کی دادی کنیزہ نے کہا کہ تنہا محمد ہی کو تمام ممالک مقبوضہ کی حکومت نہ دی جائے بلکہ محمد کے دوسرے بھائیوں کو بھی ایک ایک حصہ کی حکومت دی جائے۔ چنانچہ کنیزہ کی تجویز کے موافق محمد بن ادریس اصغر تو فاس اور اس کے نواحی علاقے کا فرماں روا قرار دیا گیا اور اس کے بھائیوں میں سے قاسم کو طنجہ، سیوطہ، طیطوان کی عمر کو تبکیسان، ترغہ اور قبائل، صنہاجہ و غمارہ کی حکومت دی گئی داؤد کو بلاد ہوارہ، ماتسول، تازی اور قبائل مکناسہ و غیاثہ دیئے گئے۔ عبداللہ کو باغمات، نفیس، جبال، مصامدہ، بلاد لمطہ اور سوس الاقصیٰ دیئے گئے۔ یحییٰ کو باصیلا، عرایش اور بلادروغہ دیئے گئے۔ عیسیٰ کو شالہ، سلا، ازمور اور تامسنا کی حکومت ملی۔ حمزہ کو بولیلی اور اس کے مضافات سپرد ہوئے۔ باقی صغیر السن لڑکے اپنی دادی کنیزہ کی کفالت و نگرانی میں رہے۔ تلمسان پر سلیمان بن عبداللہ قبضہ کر ہی چکا تھا۔ اس طرح ایک عورت کی رائے پر عمل کر کے اراکین سلطنت نے مراکش کی ایک زبردست سلطنت کو چند چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کر دیا۔ چند روز کے بعد عیسیٰ نے ازمور سے اپنے بھائی محمد بن ادریس پر فوج کشی کی۔ محمد نے اپنے بھائی قاسم کو اس مہم پر جانے کا حکم دیا۔ مگر قاسم نے اس حکم کی تعمیل سے انکار کیا۔ تب محمد نے عمر کو عیسیٰ کے مقابلے پر روانہ کیا۔ عمر نے عیسیٰ کو شکست دے کر اس کے تمام مقبوضہ ملک کو اپنی ریاست میں شامل کر لیا اور محمد نے عمر کو بخوشی ایسا کرنے دیا۔ اس کے بعد محمد نے عمر کو حکم دیا کہ وہ قاسم کو بھی تادیب کرے جس نے محمد کے حکم کی تعمیل سے انکار کیا۔
عمر نے قاسم پر فوج کشی کی سخت لڑائی ہوئی۔ قاسم نے شکست کھا کر گوشہ نشینی اور زہد و عبادت میں اپنی بقیہ زندگی بسر کر دی اور عمر نے قاسم کی ریاست کو بھی اپنے مقبوضہ ملک میں شامل کر لیا اس طرح عمر کی سلطنت بہت وسیع ہو گئی۔ مگر وہ ہمیشہ اپنے بھائی محمد کی اطاعت کا اقرار کرتا رہا۔ ۲۲۰ھ میں عمر کا انتقال ہوا
|