ولی عہدی سے معزول کرا دیا جائے۔ یہی خطرہ علی بن عیسیٰ سابق گورنر خراسان کو بھی اپنی نسبت تھا۔ لہٰذا اس نے بھی فضل بن ربیع کے اس مشورہ کی تائید کی اور امین کو مامون کی معزولی پر آمادہ کر دیا، مگر خزیمہ بن خازم کے رو برو جب یہ مسئلہ پیش کیا گیا تو اس نے اس رائے کی سخت مخالفت کی اور خلیفہ کو سر دست اس کام سے روک دیا۔ یہ خبریں مامون کے پاس بھی پہنچتی تھیں ۔ مگر اس نے ان کے متعلق بالکل خاموشی اختیار کی اور نتیجہ کا منتظر رہا۔
رافع اور ہرثمہ مامون کی خدمت میں :
اوپر بیان ہو چکا ہے کہ ہرثمہ بن اعین نے سمر قند میں رافع کا محاصرہ کر رکھا تھا اور رافع بن لیث ابھی مغلوب نہ ہوا تھا کہ طوس میں ہارون الرشید کا انتقال ہوا۔ رافع کا بھائی بشیر گرفتار ہو کر طوس میں ہارون کے پاس پہنچ کر اس کے حکم سے قتل ہو چکا تھا۔
ہارون کی وفات کے بعد ہرثمہ بن اعین نے بزور شمشیر سمر قند میں داخل ہو کر قبضہ کر لیا، اور وہیں قیام بھی کیا۔ ہرثمہ بن اعین کے ساتھ طاہر بن حسین بھی تھا۔ رافع بن لیث نے سمر قند سے فرار ہو کر ترکوں میں جا کر پناہ لی اور ترکوں کا لشکر لے کر ہرثمہ کے مقابلہ کو آیا، اس لڑائی میں بھی اس کو ہزیمت ہوئی۔ اس کے بعد ترکوں اور رافع کے درمیان ناچاقی پیدا ہوئی اور اس کی حالت بہت کمزور ہو گئی۔ اس نے اپنا قاصد مامون کے پاس بھیج کر امان طلب کی۔ مامون نے اس کو امان دے دی اور وہ مامون کی خدمت میں مرو چلا آیا۔ یہاں اس کی خوب آؤ بھگت کی گئی۔ ہرثمہ بھی چند روز کے بعد مامون کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مامون نے ہرثمہ کو اپنی رکابی فوج کا افسر بنا لیا۔ انہی ایام میں مامون نے عباس بن عبداللہ بن مالک کو ولایت رے کی حکومت سے معزول کر دیا۔
امین و مامون کی علانیہ مخالفت :
امین کے پاس بغداد میں خبر پہنچی کہ مامون نے ہرثمہ کو اپنی رکابی فوج کا افسر بنا لیا ہے، اور رافع کو عزت کے ساتھ مصاحبت میں داخل کر لیا ہے اور ولایت رے سے عباس بن عبداللہ کو معزول کر دیا ہے۔ اس خبر کو سن کر وہ بلا وجہ ناراض ہوا اور خطبہ سے مامون کا نام نکال کر اپنے بیٹے کا نام بطور ولی عہد داخل کر دیا اور عباس بن موسیٰ بن عیسیٰ بن جعفر اور محمد بن عیسیٰ بن نہیک کو پیام دے کر مامون کے پاس بھیجا کہ تم اس بات پر رضا مند ہو جاؤ کہ میرا بیٹا موسیٰ ولی عہدی میں تم پر سابق رہے اور مجمع عام میں اس کا اعلان کر دو کہ بجائے میرے موسیٰ بن امین ولی عہد ہے۔‘‘ مامون نے اس بات کے قبول کرنے سے انکار کر دیا، مگر فضل بن سہل نے اس موقع پر یہ فائدہ اٹھایا کہ عباس بن موسیٰ کو اپنا ہم خیال بنا کر مخفی طور پر اس بات
|