زریق و بابک خرمی:
زریق جس کا اصلی نام علی بن صدقہ تھا ایک عربی النسل شخص تھا، جس کو خلیفہ مامون الرشید نے ۲۰۹ھ میں آرمینیا و آذر بائیجان کا گورنر مقرر کر دیا تھا۔ اس نے ۲۱۱ھ میں چالیس ہزار کے قریب فوج جمع کر کے اپنی خود مختاری کا اعلان کیا اور مامون الرشید سے باغی ہو گیا، مامون الرشید نے ابراہیم بن لیث بن فضل کو آذر بائیجان کی حکومت پر بھیجا۔
صوبہ فارس کے شمال اور آذر بائیجان کی سرحد کے قریب ہارون الرشید کے زمانے سے ایک جدید مذہب کی بنیاد مستحکم ہو رہی تھی، یعنی جاویدان نامی مجوسی نے ایک نیا مذہب جاری کیا تھا۔ اس مذہب میں قتل و خون ریزی اور زنا کوئی جرم نہ تھا۔ یہ مذہب مزو کی مذہب سے بہت مشابہ تھا۔ جب جاویدان فوت ہوا تو اس کے ایک مرید بابک خرمی نے جاویدان کی بیوی پر خود قبضہ کر کے اپنے پیر کے تمام مریدوں کی سرداری حاصل کی، بابک خرمی کے زمانے میں ان لوگوں نے جلد جلد قوت حاصل کی اور ان کی تعداد بہت زیادہ بڑھ گئی۔ ان کی ڈاکہ زنی اور لوٹ کھسوٹ سے اس طرف کے صوبوں کا امن و امان جاتا رہا۔ ۲۰۱ھ میں انہوں نے شاہی فوجوں کا مقابلہ شروع کر دیا۔ صوبہ آذر بائیجان کے گورنروں کو کئی مرتبہ بابک خرمی کے مقابلہ میں ہزیمت حاصل ہوئی اور اس کا رعب و اقتدار خوب ترقی کر گیا۔ ۲۰۹ھ میں بابک نے آذر بائیجان کے عامل کو زندہ گرفتار کر لیا تھا، اس کے بعد زریق کو سند گورنری دے کر بھیجا گیا تھا۔
۲۱۱ھ میں زریق نے بغاوت اختیار کی تو بجائے ایک کے دو زبردست دشمن اس طرف پیدا ہو گئے۔ مامون الرشید نے سید بن انس حاکم موصل کو زریق کے مقابلہ کا حکم دیا۔ سید بن انس نے ایک زبردست فوج لے کر زریق پر حملہ کیا مگر لڑائی میں مارا گیا۔ اور فوج شکست کھا کر بھاگ آئی۔
مامون کو اس خبر کے سننے سے سخت صدمہ ہوا اور ۲۱۱ھ کے آخری ایام میں محمد بن حمید طوسی کو موصل کی سند گورنری دے کر زریق و بابک دونوں کی سرکوبی کا حکم دیا۔ محمد بن حمید طوسی بغداد سے فوج لے کر روانہ ہوا تو موصل پر زریق قابض و متصرف ہو چکا تھا۔ چنانچہ موصل کے قریب دونوں کی لڑائی ہوئی۔ زریق شکست کھا کر بھاگا اور محمد بن حمید موصل میں داخل ہوا۔
موصل کے عرب باشندوں کو فوج میں بھرتی کیا اور سامان لشکر کو درست کر کے زریق کی طرف بڑھا۔ نہر زاب پر زریق کے ساتھ صف آرائی اور زور آزمائی کی دوبارہ نوبت آئی۔ اس لڑائی میں بھی زریق نے شکست کھائی اور قید و گرفتاری کی ذلت اٹھائی۔ محمد بن حمید نے آگے بڑھ کر زریق کے تمام عاملوں اور اہلکاروں کو بے دخل کر کے تمام صوبہ آذر بائیجان پر قبضہ کیا۔ اس کے بعد محمد بن حمید بابک خرمی
|