Maktaba Wahhabi

524 - 868
منصور اعظم اسی وقت فوج لے کر ریاست کشکبنش پر حملہ آور ہوا۔ جب حدود کشکبنش کے قریب پہنچا تو غرسیہ عاجزانہ حاضر خدمت ہوا اور عرض کیا کہ مجھ سے کوئی حرکت گستاخانہ سرزد نہیں ہوئی۔ منصور نے کہا کہ تونے وعدہ کیا کہ اپنے ملک میں کوئی مسلمان قیدی نہ رکھے گا۔ پھر فلاں گرجا میں ایک مسلمان عورت قید کیوں ہے۔ اس نے اس مسلمان عورت کو منصور کے حوالے کر کے اس گرجا کو منصور کی رضا مندی حاصل کرنے کے لیے مسمار کرا دیا۔ ۲۴ ماہ جمادی الاخری ۳۸۷ھ کو منصور نے قرطبہ سے شہر قوریہ کی جانب کوچ کیا۔ قوریہ کو فتح کر کے جلیقیہ میں داخل ہوا۔ یہاں عیسائی سرداروں نے آ آکر ملازمت و شرکت اختیار کی۔ ان سب کو لے کر منصور اعظم سمندر کے کنارے تک تمام علاقے کے سرکش لوگوں کو سزا دے کر اور اس طرف کے قلعوں کو جو سامان بغاوت تھے مسمار کرا کر بحر اطلانطک کے چھوٹے چھوٹے جزیروں کو فتح کیا اور مفرورین کو جو وہاں جا کر پناہ گزین ہوئے تھے گرفتار کیا۔ ساحل فرانس کے شہروں کو فتح کیا اور ان عمارتوں کو جو سازش خانے بنائے گئے تھے مسمار کرنے کے بعد واپس ہوا۔ یہ منصور اعظم کا اڑتالیسواں جہاد تھا۔ علم و فضل کی قدر افزائی : منصور اعظم علم و فضل کا ایسا ہی قدر دان تھا جیسا کہ خلیفہ حکم ثانی، وہ خود بھی عالم تھا اور عالموں کی بڑی قدر کرتا تھا۔ مگر وہ لوگ جو لڑکپن میں اس کے ہم سبق رہ چکے تھے منصور اعظم کی اس عظمت و شوکت کو دیکھ کر دل ہی دل میں حسد کے مارے جلے بھنے جاتے تھے۔ انہوں نے موقع پا کر منصور اعظم کے خلاف ایک سازش مرتب و برپا کی اور یہ الزام لگایا کہ منصور فلسفہ کی جانب (زیادہ مائل ہے اور اس پر دہریت غالب ہے مگر منصور نے اپنے خلاف اس قسم کی شہرت سن کر فوراً اس کی تلافی کی اور خود مذہبی علماء کی ایک بڑی مجلس منعقد کر کے اس قسم کی باتوں کا) سدباب کر دیا۔ منصور نے بہت سے پل بنائے۔ جامع مسجد قرطبہ کی اس نے بھی توسیع کی۔ امن و امان اور رعایا کی خوش حالی اس کے زمانے میں پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئی۔ وہ ایسے مقامات پر بھی اپنی فوجیں لے گیا جہاں اس سے پہلے کوئی مسلمان نہ پہنچا تھا۔ غرض منصور اعظم کا عہد حکومت ہر ایک اعتبار سے حکومت اندلس کا نہایت شاندار زمانہ تھا۔ منصور اعظم کے نام سے عیسائی سلاطین کے دل میں اس قدر خوف طاری ہوتا تھا کہ اس سے زیادہ کسی اموی خلیفہ سے بھی وہ نہ ڈرتے تھے منصور نے نہایت ادنیٰ درجہ کی حالت سے ترقی کر کے اپنے آپ کو حکومت و سلطنت کے اعلیٰ ترین مقام پر پہنچایا۔ اس لیے وہ دنیا کے باحوصلہ اور قابل تکریم لوگوں کی صف میں اعلیٰ مقام رکھتا ہے۔ ۳۹۴ھ میں جب وہ فوت ہوا تو اگرچہ خلافت بنو امیہ ہشام ثانی کی بے بسی و نالائقی کے سبب اپنے
Flag Counter