Maktaba Wahhabi

634 - 868
دے دیا۔ کتامیوں نے بر سر اقتدار ہو کر ملک میں لوگوں کو بہت پریشان کیا۔ ادھر مشرق سے دیلمی خاندان کے بعض افراد بھی بوجہ شیعہ ہونے کے مصر پہنچ گئے تھے اور دولت عبیدیین کی حمایت میں سرفروشی کا اظہار کرنے سے مشرقیوں کی ایک کافی تعداد مصر میں موجود تھی۔ بالآخر مشرقی اور مغربی گروہوں میں خانہ جنگی ہوئی۔ دمشق و حجاز وغیرہ میں بھی بغاوتیں ترقی پذیر رہیں ۔ دمشق پر کبھی عرب قابض ہو جاتے تھے کبھی ترکی غلام کبھی مصری سردار غرض مصر و شام و حجاز و افریقہ میں بدامنی و فساد کی خوب گرم بازاری رہی۔ ولید بن ہشام کا خروج اور اس کا قتل : اسی اثنا میں ولید بن ہشام المعروف بہ ارکوہ نے خروج کیا۔ اس کا مختصر حال یہ ہے کہ جب اندلس میں منصور بن ابی عامر نے مستولی و متصرف ہو کر شہزاد گان بنو امیہ کی گرفتاری و قتل کا سلسلہ شروع کیا تو بنو امیہ کے آخری خلیفہ کا بیٹا ولید اپنی جان کے خوف سے چھپ کر قیروان چلا آیا تھا۔ یہاں چند روز رہ کر یمن، مکہ، وغیرہ ہوتا ہوا شام کے ملک میں آ گیا یہاں بدامنی کا دور دورہ تھا۔ اس نے موقع پا کر یہاں بنی امیہ کی خلافت کے لیے دعوت دینی شروع کی۔ کچھ لوگ اس کے ہم خیال ہو گئے، مگر یہاں پوری پوری کامیابی نہ دیکھ کر پھر ملک مصر کی طرف چلا گیا۔ وہاں سے برقہ کے علاقے میں پہنچا۔ وہاں اس کو اچھی خاصی کامیابی حاصل ہوئی۔ حاکم عبیدی کو اس کی اطلاع ہوئی تو اس نے اول اول اس کی طرف کوئی توجہ نہ کی۔ چونکہ حاکم عبیدی کی حکومت سے لوگ ناخوش اور نالاں تھے۔ اس لیے ولید بن ہشام کے گرد قبائل آ آکر جمع ہونے لگے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس نے برقہ پر قبضہ کر کے مصر پر چڑھائی کر دی۔ اب حاکم عبیدی کی آنکھیں کھلیں اس نے فوج مقابلہ کے لیے بھیجی مگر شکست حاصل ہوئی۔ اسی طرح بار بار مصر سے فوجیں گئیں اور شکست کھا کھا کر واپس آئیں ، قریب تھا کہ تمام ملک افریقہ و مصر پر ولید بن ہشام کا قبضہ و حکومت قائم ہو جائے کہ حاکم عبیدی نے چالاکی سے اس کے بعض سرداروں کو لالچ دے کر اپنی جانب مائل کر لیا اور انہوں نے ولید بن ہشام کو دھوکا دے کر گرفتار کرا دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حاکم عبیدی نے اس کو قتل کرا کر اس کی لاش کو تشہیر کرایا اور اس طرح ۳۹۷ھ میں اس ہنگامہ کا خاتمہ ہوا۔ چونکہ لوگوں کو عبیدی حکومت سے بوجہ اس کے شیعہ ہونے کے نفرت تھی۔ اس لیے حاکم عبیدی نے ولید بن ہشام کی ہنگامہ آرائیوں کے دوران لوگوں کو اپنی طرف مائل کر کے اور سنیوں کے دلوں سے اپنی نفرت دور کرنے کے لیے ایک فرمان اس مضمون کا جاری کیا کہ جس شخص کا جی چاہے وہ سنی مذہب اختیار کرے اور جس کا جی چاہے شیعہ مذہب قبول کرے۔ اسی طرح جس کا جی چاہے اذان میں ’’حی علی خیرا لعمل‘‘ پکارے اور جس کا جی چاہے نہ پکارے، مذہب کے معاملے میں کسی پر کسی قسم کا تشدد نہ کیا جائے گا۔
Flag Counter