اپنے ہاتھ میں لے کر ظافر کو شاہ شطرنج بنا دیا۔ ۵۴۸ھ میں عیسائیوں نے عسقلان کا محاصرہ کیا۔ اہل عسقلان نے محصور ہو کر دربار قاہرہ میں امداد و اعانت کی درخواست بھیجی یہاں سے وزیرالسلطنت عادل نے اپنے ربیب عباس بن ابی الفتوح کو فوج دے کر عسقلان سے عیسائیوں کا محاصرہ اٹھانے کی غرض سے روانہ کیا۔ یہاں ظافر اور عباس میں یہ سازش ہو گئی تھی کہ عادل کو قتل کیا جائے۔ چنانچہ عباس خود فوج لے کر بلبیس میں جا کر مقیم ہوا۔ ادھر عباس کے نو عمر بیٹے نصیر نے عادل کا سوتے ہوئے کام تمام کر دیا۔ عادل کے قتل کی خبر سن کر عباس قاہرہ میں واپس چلا آیا اور قلم دان وزارت اس کو سپرد ہوا۔ اہل عسقلان کی کسی نے خبر نہ لی۔ انہوں نے مجبور ہو کر اپنے آپ کو عیسائیوں کے حوالے کر دیا اور عیسائیوں نے عسقلان پر قابض ہو کر دولت عبیدیہ کی کمزوری و نالائقی کے راز کو اور بھی فاش کر دیا۔ نصیر بن عباس جس کا نام اوپر ابھی آ چکا ہے ظافر عبیدی کا ندیم خاص اور روز و شب کا مصاحب و جلیس تھا۔ اس کے اور ظافر کے تعلقات کی نسبت لوگوں میں برے برے خیالات کا اظہار ہوتا تھا۔
ظافر کا قتل :
نصیر نے ایک روز ماہ محرم ۵۴۹ھ میں ظافر کی ضیافت کی۔ ظافر نصیر کے یہاں آیا۔ نصیر نے ظافر اور اس کے ہمراہیوں کو قتل کرا کر اسی مکان میں دفن کر دیا۔ دوسرے دن وزیر السلطنت عباس بن ابی الفتوح حسب دستور قصر سلطنت میں گیا اور خدام سے بادشاہ ظافر کا دریافت کیا۔ انہوں نے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا۔ اس کے بعد عباس واپس چلا آیا۔ خدام محل سرائے عباس کے واپس جانے پر ظافر کے بھائی جبرئیل اور یوسف کے پاس گئے اور ظافر کے نصیر کے مکان پر جانے اور وہاں سے اب تک واپس نہ آنے کا حال بیان کیا۔ یوسف اور جبرئیل نے کہا کہ تم اس کیفیت کو وزیر السلطنت عباس سے جا کر بیان کرو۔ خدام نے عباس کے پاس آکر یہ حال سنایا۔ عباس نے کہا معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یوسف اور جبرئیل کی سازش سے بادشاہ ظافر قتل کیا گیا ہے چنانچہ اس نے فوراً ظافر کے ان دونوں بھائیوں کو گرفتار کرا کر بلوایا اور فوراً قتل کرا دیا۔ ساتھ ہی حسن بن حافظ کے دونوں لڑکوں کو بھی قتل کرا دیا۔ اس کے بعد محل سرائے سلطانی میں جا کر ظافر کے بیٹے عیسیٰ ابوالقاسم کو زبردستی گود میں اٹھا لایا۔ تخت سلطنت پر لا کر بٹھایا اور ’’فائز بنصر اللہ‘‘ کا لقب تجویز کر کے لوگوں سے ان کے نام پر بیعت لی۔ خاندان سلطنت کے پانچ آدمیوں کے اس طرح مقتول ہونے پر بیگمات سلطنت نے صالح بن زریک کے پاس پوشیدہ طور پر ایلچی روانہ کیے۔ جو ان دنوں اثمونین ونبسہ کا عامل تھا اور تمام حالات سے اس کو اطلاع دے کر عباس کی بیخ کنی کی درخواست کی چنانچہ صالح بن زریک فوجیں فراہم کر کے قاہرہ کی طرف روانہ ہوا۔ عباس یہ دیکھ کر کہ اہل
|