کے باقیوں کو ایسی سخت سزائیں دیں کہ عیسائی سلاطین ان کے نام سے لرزنے اور کانپنے لگے اور یہاں تک نوبت پہنچی کہ خود عیسائی سلاطین اور سرداروں نے اس کی فوج میں شریک ہو کر عیسائی ملکوں کو پامال کیا اور خود عیسائیوں نے اپنے ہاتھ سے اپنے گرجوں کو ڈھانے اور مسمار کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ مگر محمد بن ابی عامر نے ان کو معبدوں کی بے حرمتی و تباہی سے روک دیا۔ پھر اس نے افریقہ کی طرف توجہ کی۔ ادھر بھی سلطنت اندلس کی حدود کو وسیع کیا۔ غرض اس نے اپنے عہد حکومت میں چھپن (۵۶) جہاد کیے اور ہر ایک لڑائی میں فتح مند ہوا۔ آخری ایام حکومت میں اس نے اپنا خطاب ’’منصور‘‘ تجویز کیا۔ چنانچہ وہ نہ منصور بلکہ منصور اعظم کے خطاب سے مشہور ہوا۔
وفات:
۳۹۴ھ میں ۲۷ سال کی حکومت کے بعد قسطلہ کے آخری جہاد سے واپس آتا ہوا مدینہ سالم میں جس کو میڈینا سلی کہتے ہیں فوت ہو کر مدفون ہوا۔
محمد بن ابی عامر منصور کے عہد پر تبصرہ:
منصور اعظم کی مثال ایسی سمجھنی چاہیے جیسے خلافت بغداد میں دیلمی و سلجوقی وغیرہ سلاطین کی حالت تھی۔ کہ خلیفہ برائے نام ہوتا تھا۔ اور اصل حکومت ان سلاطین کے ہاتھ میں ہوتی تھی۔ منصور اعظم نے اپنے آپ کو حاجب یعنی وزیر اعظم ہی کے نام سے موسوم رکھا لیکن باقی تمام امور میں وہ مطلق العنان فرماں روا تھا۔ اس نے مدینہ زاہر کے نام سے ایک قصر قرطبہ کے قریب چند میل کے فاصلے پر تعمیر کرایا تھا جو قلعہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ اسی میں وہ تمام دفاتر اور خزائن کو لے گیا تھا۔ خطبہ میں ہشام کے ساتھ اس کا نام بھی لیا جاتا تھا۔ سکہ میں بھی اس کا نام درج ہوتا تھا۔ امراء اور اراکین سلطنت اس کی ایسی ہی تکریم کرتے اور تمام آداب دربار اسی طرح بجا لاتے جس طرح وہ خلفائے بنو امیہ کے لیے بجا لاتے تھے۔
ابن ابی عامر یعنی منصور اعظم کا وجود اندلس اور اندلس کی اسلامی حکومت و سلطنت کے لیے بہت ہی مبارک و مسعود تھا۔ اس نے لیون اور اس کی ارد گرد کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو خلافت قرطبہ کا براہ راست ایک صوبہ بنا لیا تھا۔ برشلونہ، قسطلہ اور نوار کو اس نے خراج گذار اور پورے طور پر فرماں بردار بنانے میں کامیابی حاصل کر لی تھی۔ ایک مرتبہ غرسیہ والیٔ ریاست کشکبنش کے پاس منصور اعظم کا کوئی ایلچی کسی ضرورت سے گیا۔ غرسیہ نے اس کا نہایت شان دار استقبال کیا اور اپنے تمام ملک کی اس کو سیر کرائی۔ اس سیر و سیاحت میں اس ایلچی کو معلوم ہوا کہ کسی کلیسا میں کوئی مسلمان عورت قید ہے۔ جس کو راہبوں نے قید کر رکھا ہے۔ ایلچی نے واپس آکر حالات سنائے اور اس مسلمان عورت کا بھی تذکرہ کیا۔
|