عرض معروض کروں ۔ چنانچہ وہ اپنے بیٹے شاہ نوار اور اپنے نواسے شاہ لیون کو لے کر قرطبہ کی جانب روانہ ہوئی۔ گویا تین عیسائی بادشاہ حدود فرانس سے خلیفہ کے دربار میں حاضر ہونے کے لیے روانہ ہوئے یہ ایک نہایت جاذب توجہ نظارہ تھا۔ راستے کے جن جن شہروں یا قصبوں میں یہ لوگ قیام کرتے تھے لوگ ان کے دیکھنے کو جمع ہو جاتے تھے کہ کئی بادشاہ فریادی بن کر دربار قرطبہ کی طرف جا رہے ہیں ۔ قرطبہ کے قریب پہنچے تو ان کا نہایت شاندار استقبال کیا گیا۔ دربار میں خلیفہ کے سامنے حاضر ہوئے تو دربار کی شان اور خلیفہ کے رعب و جلال نے ان کو مبہوت اور سربسجود کر دیا خلیفہ نے ان کی دل دہی اور تشفی کی اور ان لوگوں کے اتنی دور چل کر آنے اور فریاد کرنے کا اثر ہوا کہ خلیفہ نے ان کے ساتھ اپنے فوجی دستوں کو روانہ کیا کہ ریاست لیون و جلیقیہ کی حکومت شانجہ کو دلا دیں ۔ چنانچہ امیرالمومنین عبدالرحمن ثالث کی فوجوں نے اردونی چہارم کو بے دخل کر کے شانجہ کو جلیقیہ و لیون کا بادشاہ بنا دیا اور اردونی بھاگ کر قسطلہ میں فرڈی نند کے پاس چلا گیا اور سلطانی فوجوں نے اس سے زیادہ تعرض نہیں کیا۔ اردونی کے انجام کو دیکھ کر شاہ برشلونہ اور رئیس طرکونہ نے اپنے سفیر دربار قرطبہ میں بھیج کر التجا کی کہ ہم دربار خلافت کے غلام ہیں اور اپنی اپنی ریاست کو عطیہ سلطانی سمجھتے ہیں ۔ اطاعت و فرماں برداری کے شرائط بجا لانے میں مطلق انکار و تامل نہیں ہے۔ لہٰذا ہم کو ہماری ریاستوں کی سندیں پھر عطا ہوں اور ہمارے اظہار اطاعت کی تجدید کو شرف قبولیت عطا فرمایا جائے۔ خلیفہ ناصر نے ان عیسائی بادشاہوں کے نام اپنی رضا مندی و خوشنودی کے احکام روانہ کر کے ان کو مطمئن کیا۔
اہل علم و فن کی قدر افزائی:
خلیفہ عبدالرحمن ثالث نے جہاں کہیں کسی علم و فن کے با کمال کا نام سنا اس کو بلوایا اور بڑی قدر دانی کے ساتھ پیش آیا اس قدردانی کا نتیجہ یہ ہوا کہ بغداد، قسطنطنیہ، قاہرہ، قیروان، دمشق، مدینہ، مکہ، یمن، ایران اور خراسان تک سے با کمال لوگ کھنچ کھنچ کر قرطبہ میں جمع ہو گئے۔ ان با کمالوں میں ہر علم و فن اور ہر ملت و مذہب کے لوگ شامل تھے اور دربار خلافت سے سب کی عزت افزائی اور تربیت و پرورش ہوتی تھی۔
تعمیری ذوق:
خلیفہ عبدالرحمن کو سلاطین اندلس میں وہی مرتبہ حاصل تھا جو ہندوستان کے شاہان مغلیہ میں شاہجہان کو۔ مسجد قرطبہ کی تعمیر کا کام عبدالرحمن اول کے زمانہ میں شروع ہو کر اس کے بیٹے ہشام کے زمانے میں ختم ہو چکا تھا۔ مگر اس کے بعد بھی ہر ایک فرماں روائے اندلس نے اس مسجد کی شان و شوکت اور زیب و زینت کے بڑھانے میں ہمیشہ خزانوں کا منہ کھلا رکھا۔ خلیفہ عبدالرحمن ثالث نے بھی اس مسجد
|