سفیر کے ہاتھ طلیطلہ کی جانب ان بھائیوں کے پاس بھیجا جس میں لکھا تھا کہ ایسے قدیمی وفادار نمک حلال شخص کو قید کرنا مناسب نہ تھا، سلیمان و عبداللہ نے اس سفیر کے سامنے غالب ثقفی کو قید خانے سے بلوا کر قتل کر دیا اور کہا کہ جاؤ اس خط کا یہی جواب ہے، سلطان ہشام اس جواب کو سن کر قرطبہ سے بیس ہزار فوج لے کر طلیطلہ کی جانب روانہ ہوا، ادھر سے سلیمان و عبداللہ دونوں ایک زبردست فوج لے کر طلیطلہ سے قرطبہ کی جانب روانہ ہوئے، طلیطلہ سے تھوڑے فاصلہ پر دونوں فوجوں کا مقابلہ ہوا، سلیمان و عبداللہ شکست کھا کر طلیطلہ میں واپس ہو کر قلعہ بند ہو بیٹھے۔ قلعہ طلیطلہ اپنی مضبوطی کے لیے مشہور تھا اس کا فتح کرنا کوئی آسان کام نہ تھا ہشام نے طلیطلہ کا محاصرہ کر لیا، سلیمان نے اپنے بیٹے اور عبداللہ دونوں کو طلیطلہ میں چھوڑ کر اور ایک حصہ فوج لے کر قرطبہ کا رخ کیا، قرطبہ میں عبدالملک بطور گورنر مقیم تھا، عبدالملک نے سلیمان کے آنے کی خبر سن کر قرطبہ سے کچھ فاصلہ پر سلیمان کا استقبال تیر و شمشیر سے کیا، سلیمان شکست کھا کر مرسیہ کی طرف بھاگ گیا اور ملک میں جا بجا لوٹ مار مچاتا ہوا پھرنے لگا، یہ حالت دیکھ کر سلطان ہشام نے طلیطلہ کے محاصرہ پر ایک سردار کو چھوڑ کر دارالسلطنت قرطبہ کا عزم کیا، تاکہ قرطبہ میں بیٹھ کر سلیمان کی نقل و حرکت کی نگرانی اور اس کا بندوبست بآسانی کیا جا سکے۔
بھائیوں کی معافی:
عبداللہ جب طول محاصرہ سے تنگ آگیا تو اس نے بلا شرط اور بلا جان کی امان طلب کیے ہوئے اپنے آپ کو سلطان ہشام کے قبضے میں دے دینا گوارا کر لیا، چنانچہ وہ محاصرین کی ایک معتمد کی نگرانی میں قرطبہ آکر دربار سلطانی میں حاضر ہوا، سلطان ہشام نے خطا معاف کر دی اور بڑی عزت و محبت کا برتاؤ کیا اور اس بات کے ثابت کرنے کے لیے کہ عبداللہ کی طرف سے سلطان کا دل صاف ہے اس کو طلیطلہ ہی میں جاگیر دے کر رخصت کر دیا۔
سلیمان نے مرسیہ میں بہت سے آدمیوں کو جمع کر لیا، سلطان نے اپنے نو عمر بیٹے کو فوج کا سردار بنا کر مقابلہ پر بھیجا، دونوں فوجوں کا مقابلہ ہوا تو سلیمان حکم سے شکست کھا کر بھاگا، اس کی تمام جمعیت مقتول و منتشر ہو گئی آخر مجبور ہو کر دو برس تک آوارہ و سرگرداں رہنے کے بعد ۱۷۴ھ میں سلیمان نے سلطان ہشام سے معافی کی درخواست کی، سلطان ہشام نے فوراً اس کی درخواست منظور کی اور اپنے بھائی کو دربار میں نہایت عزت و تکریم کے مقام پر جگہ دی، سلیمان نے کہا کہ میں ملک اندلس میں اب رہنا پسند نہیں کرتا، مجھ کو افریقہ جانے کی اجازت دے دی جائے، ہشام نے بہ خوشی اس کو اجازت دے دی اور اس کی جاگیر جو اندلس میں تھی، ستر ہزار مثقال سونے کے عوض خرید لی، سلیمان افریقہ میں پہنچ کر
|