قرطبہ میں موجود تھے۔ طلباء کے مصارف اور رہنے سہنے کا انتظام سب شاہی خزانہ کے ذمہ تھا۔ آخر ایام حیات میں خلیفہ عبدالرحمن ثالث نے اپنے ولی عہد حکم کو کاروبار سلطنت بہت کچھ سپرد کر دیا تھا۔ اور خود اپنا وقت عبادت الٰہی میں زیادہ بسر کرنے لگا تھا۔
وفات:
خلیفہ عبدالرحمن ثالث المقلب بہ ناصرلدین اللہ نے مرتے وقت سلطنت اندلس کو اس حالت میں چھوڑا کہ عیسائی سلاطین جو سرحد پر تھے اپنی سیکڑوں برس کی جدوجہد کے بعد مایوس و ناکام ہو کر سلطنت اسلامیہ اندلس کی غلامی و فرماں برداری کا اقرار کرنے پر مجبور ہو کر اطاعت گذاری پر ہمہ وقت مستعد نظر آتے تھے اور غلاموں کی طرح دربار قرطبہ میں عرضیاں بھیجتے اور التجائیں کرتے تھے۔ جو عیسائی بادشاہ دور دراز کے ملکوں پر قابض و فرماں روا تھے۔ وہ بھی خلیفہ اندلس کو رضا مند رکھنے کی کوششوں میں مصروف نظر آتے اور دربار قرطبہ کے ساتھ دوستانہ تعلقات پیدا ہونے پر فخر کرتے تھے۔ مراکش کا ملک اندلس کی حکومت میں شامل تھا۔ تمام بحر روم اور دوسرے سمندروں پر بھی اندلس کے بیڑہ کی حکومت تھی اور سمندروں میں کوئی طاقت اندلس کے جہاز کو نہیں ٹوک سکتی تھی۔ کوئی اندرونی خطرہ بھی باقی نہ رہا تھا۔
خلیفہ حکم بن عبدالرحمن ثالث کی تخت نشینی:
اپنے باپ کی وفات کے تیسرے روز خلیفہ حکم ۵ رمضان المبارک ۳۵۰ھ کو بعمر ۴۸ سال قصر الزہرا میں تخت خلافت پر بیٹھا۔ وزراء، سپہ سالاران فوج، امراء، علماء اور اراکین سلطنت بیعت کے لیے حاضر دربار ہوئے۔ قاضی القضاۃ اور دوسرے قاضیوں نے اول بیعت کی، اس کے بعد خلیفہ کے بھائیوں اور شہزادوں نے رسم بیعت ادا کی۔ اس کے بعد وزراء و امراء اور اراکین سلطنت نے اقرار اطاعت کیا۔ صوبوں کے عامل جو قرطبہ میں حاضر ہو سکے تھے انہوں نے اصالتاً شرف بیعت حاصل کیا۔ باقی لوگوں کے پاس ملک کے صوبوں اور بڑے بڑے شہروں میں بیعت لینے کے لیے خلیفہ نے وکلاء روانہ کیے قصر شاہی کے خادموں اور غلاموں نے بھی بیعت کی۔ تخت نشینی کی رسم بڑی دھوم دھام اور شان و شکوہ کے ساتھ ادا ہوئی۔ خلیفہ حکم ثانی نے اپنا لقب مستنصر باللہ تجویز کیا۔ جعفر مصحفی کو اپنا حاجب مقرر کیا۔
نظم و نسق کا جائزہ:
اس کے بعد خلیفہ حکم نے سلطنت کے تمام صیغوں اور محکموں کا جائزہ خصوصی توجہ کے ساتھ لیا۔ ہر ایک وزیر کے دفتر کا معائنہ کیا۔ فوج کے رجسٹروں کو جانچا اور افواج شاہی کی موجودات لی۔ غرض نہایت احتیاط کے ساتھ سلطنت کی جزئیات تک سے اپنے آپ کو واقف و آگاہ بنایا۔ حالانکہ وہ پہلے سے بھی
|