برداشت کیں اور مدافعت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔
ابھی عیسائیوں نے عکہ کا محاصرہ کر رکھا تھا اور شام کے تمام مسلمانوں کی توجہ اس طرف منعطف تھی کہ مستعلی کے وزیر محمد ملک نے مصری فوج لے کر بیت المقدس پر حملہ کر دیا۔ شیعوں کا یہ حملہ عیسائیوں کے لیے بے حد مفید ثابت ہوا اور شام کی اسلامی فوج بیک وقت ان دونوں زبردست حملہ آوروں کا مقابلہ نہ کر سکی۔ سلیمان اور ایلغازی بیت المقدس میں شیعوں کی مصری فوج کے مقابلہ میں مصروف ہو گئے اور عکہ پر عیسائیوں کے حملہ کی روک تھام میں کوئی مدد نہ پہنچا سکے۔ ادھر جو لوگ عیسائیوں کے مقابلے پر ڈٹے ہوئے تھے وہ بیت المقدس والوں کے پاس کوئی کمک نہ بھیج سکے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بیت المقدس پر مصر کے وزیرالسلطنت کا قبضہ ہو گیا اور سلیمان و ایلغازی وہاں سے مشرق کی جانب چلے گئے۔ مصریوں کو دیر تک بیت المقدس پر قبضہ قائم رکھنا نصیب نہ ہوا۔
عیسائیوں نے ۲۳ شعبان ۴۹۲ھ کو چالیس روز کے محاصرے کے بعد بیت المقدس کو فتح کر لیا۔ شہر میں گھس کر عیسائی فتح مندوں نے مسلمانوں کا قتل عام شروع کیا۔ مسلمانوں نے محراب داؤد علیہ السلام میں پناہ لی کہ یہاں عیسائی قتل سے باز رہیں گے۔ مگر انہوں نے وہاں بھی ان کو قتل کیا۔ مسجد اقصیٰ اور صخرئہ سلیمان میں ستر ہزار مسلمان شہید کیے گئے۔ مسجد اقصیٰ کا تمام سامان قندیلیں جو چاندی اور سونے کی تھیں سب لوٹ لیں اس ہنگامہ میں لا تعداد مسلمان شہید ہوئے۔ بیت المقدس کے جس قدر مسلمان کسی نہ کسی طرح بچ کر بھاگ سکے۔ وہ بحالت پریشان بغداد پہنچے اور وہاں عیسائیوں کے ان مظالم اور مسلمانوں کی بربادی کا حال خلیفۂ بغداد کو سنایا۔ خلیفہ نے برکیارق، محمد، سنجر وغیرہ سلاطین سلجوقیہ کے پاس پیغام بھیجا کہ ملک شام کو بچاؤ۔ مگر یہ آپس کی خانہ جنگیوں میں ایسے مصروف تھے کہ اس طرف متوجہ نہ ہو سکے اور ملک شام کو عیسائیوں نے خاک سیاہ بنا ڈالا۔ وزیرالسلطنت مصر جس نے مسلمانوں کے قبضے سے بیت المقدس کو لے کر عیسائیوں کے ہاتھ فتح کرا دیا یہ خبر سن کر مصر سے فوج لے کر چلا کہ بیت المقدس کو عیسائیوں سے فتح کر لے۔ لیکن عیسائیوں نے اس کے آنے کی خبر سن کر آگے بڑھ کر مصری فوج کو شکست فاش دے کر بھگا دیا اور بھاگتے ہوؤں میں سے بھی کسی کو بچ کر نہ جانے دیا۔ چند آدمیوں کے ساتھ وزیرالسلطنت مصر پہنچا۔ اس کے بعد عیسائیوں نے عسقلان کا محاصرہ کیا اور ہزار دینار تاوان لے کر وہاں سے واپس ہوئے۔
وفات:
۱۵ صفر ۴۹۵ھ کو مستعلی نے وفات پائی اور اس کا بیٹا ابوعلی جس کی عمر پانچ سال کی تھی تخت سلطنت
|