کی ریاست کو بیخ و بن سے اکھیڑ کر مسلمانوں کا نام و نشان جزیرہ نمائے اندلس سے مٹا دیں گے۔ اس لشکر عظیم کا سپہ سالار اعظم سلطنت قسطلہ کا ولی عہد بطر وہ قرار دیا گیا۔ یورپ کے مختلف ممالک سے پچیس کے قریب عیسائی سلاطین اس لشکر میں آکر شریک ہوئے۔ پوپ اعظم نے ہر ایک سردار کے سر پر ہاتھ پھیر کر اس کو برکت دی اور تمام براعظم یورپ میں پادریوں نے دعائیں مانگیں کہ اس مرتبہ اندلس سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹا دینے میں کامیابی حاصل ہو۔
جنگ البیرہ:
اس عظیم الشان لشکر اور ایسی حیرت انگیز تیاریوں کا حال سن کر غرناطہ کے مسلمانوں کو بڑی پریشانی ہوئی ابوالولید نے مراکش کے بادشاہ ابو سعید کے پاس پیغام بھیجا کہ یہ وقت مدد کا ہے۔ مگر سلطان مراکش نے کسی قسم کی مدد دینے سے انکار کر دیا یا یہ کہ وہ کوئی مدد نہ دے سکا۔ بہر حال جب اس طرف سے بھی مایوسی ہوئی تو غرناطہ کے مسلمانوں کی عجیب حالت ہوئی۔ ان کی نگاہوں کے سامنے ہلاکت یقینی تھی اور کامیابی کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی۔ ابوالولید… سلطان غرناطہ زیادہ سے زیادہ جس قدر فوج جمع کر سکا۔ اس کی تعداد ساڑھے پانچ ہزار تھی۔ یعنی چار ہزار پیادے اور ڈیڑھ ہزار سوار عیسائیوں کے کئی لاکھ لشکر جرار کے مقابلہ میں اس قلیل تعداد کی کوئی حقیقت ہی نہ تھی مگر اللہ پر بھروسہ کر کے اسی مٹھی بھر فوج کو لے کر سلطان غرناطہ ۲۰ ربیع الآخر ۷۱۹ھ کو غرناطہ سے روانہ ہوا۔ سلطان نے اپنے ایک سردار شیخ الغزاۃ نامی کو پانچ سو آدمیوں کا ایک دستہ دے کر بطور ہر اول آگے بھیج اور پانچ ہزار فوج لے کر اس کے پیچھے خود روانہ ہوا۔ راستے بھر امراء لشکر سے مشورے ہوتے رہے کہ ہم کس طرح عیسائیوں پر فتح پا سکتے ہیں ۔ آخر مسلمانوں کے ہر اول کا عیسائیوں کے ہر اول سے مقابلہ ہوا اور عیسائی ہر اول شکست کھا کر پیچھے ہٹ گیا۔ اس کے بعد سلطان ابوالولید نے مقام البیرہ کے متصل ایک جھاڑی میں اپنے ایک سردار ابوالجیوش نامی کو ایک ہزار سواروں کے ساتھ چھپا دیا۔ شیخ الغزاۃ کو پانچ سو سپاہیوں کے ساتھ آگے بھیجا اور حکم دیا کہ تم عیسائیوں کے سامنے پہنچ کر پیچھے ہٹنا اور اپنے تعاقب میں ان کو لگائے لانا ابوالجیوش کو یہ ہدایت تھی کہ جب عیسائی تمہارے برابر سے گذر جائیں تو تم جھاڑیوں سے نکل کر ان پر عقب سے حملہ آور ہونا صرف تین سو سوار لے کر سلطان ابوالولید ایک مناسب مقام پر ٹھہر گیا اور باقی فوج ایک اور سردار کو دے کر مناسب ہدایات کے ساتھ آہستہ بڑھنے کا حکم دیا۔ شیخ الغزاۃ ۶ جمادی الاول ۷۱۹ھ کو علی الصباح عیسائی لشکر کے سامنے پہنچا۔ عیسائیوں نے اس قلیل جماعت کو دیکھ کر فوراً حملہ کیا۔ شیخ الغزاۃ نے حسب ہدایت پیچھے ہٹنا شروع کیا اور عیسائی لشکر کا سمندر کمزور مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کے شوق میں
|