Maktaba Wahhabi

150 - 868
مامون نے حسن بن سہل کو تعزیت کا خط لکھا اور بجائے فضل بن سہل کے اس کو اپنا وزیر بنایا۔ فضل بن سہل کی ماں کے پاس خود برسم تعزیت گیا اور کہا کہ جس طرح فضل آپ کا فرزند تھا اسی طرح میں بھی آپ کا فرزند ہوں ۔ چند روز کے بعد حسن بن سہل کی بیٹی بوران سے شادی کر کے حسن کے مرتبے کو مامون نے اور بھی زیادہ بڑھا دیا تھا۔ غرض فضل بن سہل کا قتل بالکل اسی طرح وقوع پذیر ہوا جس طرح جعفر برمکی کا قتل ظہور میں آیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فضل بن سہل کو مامون الرشید نے قتل کرایا اور وہ چاروں شخص مامون الرشید کے مامور کردہ تھے جنہوں نے فضل کو حمام میں قتل کیا۔ فضل اپنے آپ کو کشتنی و گردن زدنی ثابت کر چکا تھا۔ مامون نے اس معاملہ میں اپنے باپ ہارون الرشید کے نقش قدم پر عمل کیا لیکن فرق اس قدر ہے کہ ہارون الرشید نے جعفر برمکی کو قتل کرا کر برامکہ کے تمام خاندان کو معتوب ،بنایا اور قتل جعفر کا الزام اپنے اوپر لے لیا، مگر مامون الرشید نے فضل کو قتل کرا کر اس کے خاندان پر اس قدر عنایتیں کیں کہ کسی کو جرائت نہ ہو سکی کہ مامون کو بد نام کر سکے اور ملزم ٹھہرا سکے حتیٰ کہ فضل کا بھائی اور ماں باپ بھی مامون کی شکایت زبان پر نہ لا سکے، فضل بن سہل مقام سرخس میں ۲ شعبان ۲۰۲ھ کو قتل ہوا۔ علی رضا بن موسی کاظم کی وفات: خلیفہ مامون الرشید اپنی بیٹی ام حبیب کا عقد علی رضا سے پہلے کر چکا تھا، اس سفر میں اس نے اپنی دوسری بیٹی ام الفضل کا عقد جو بہت ہی کم سن تھی عقد علی رضا کے بیٹے محمد بن علی رضا سے کر دیا مگر رخصتی آئندہ زمانہ پر جب کہ لڑکی بالغ ہو جائے ملتوی رکھی گئی۔ چنانچہ یہ رخصتی ۲۱۵ھ میں ہوئی۔ مامون الرشید ماہ رجب ۲۰۲ھ میں مرو سے روانہ ہوا اور ۱۵ صفر ۲۰۴ھ کو بغداد پہنچا۔ یہ سفر مامون نے تقریباً ڈیڑھ برس میں طے کیا اور راستے میں ہر ایک مقام پر ہفتوں اور مہینوں ٹھہرتا ہوا بغداد کی طرف آیا، اس سفر میں ملک کے حالات سے اس کو خوب واقفیت حاصل ہوتی رہی اور بغداد میں اس کے پہنچنے سے پہلے ہی حالات اس کے موافق ہوتے گئے۔ اسی سفر میں مامون الرشید نے بماہ ذیقعدہ علی رضا کے بھائی ابراہیم بن موسیٰ کاظم کو امیر الحج مقرر کر کے بھیجا اور صوبہ یمن کی سند گورنری بھی ان کو عطا کر دی۔ طوس میں پہنچ کر قیام کیا اور اپنے باپ ہارون الرشید کی قبر پر حاضر ہو کر دعا کی۔ طوس میں ایک مہینے سے زیادہ قیام رہا۔ یہیں ایسا اتفاق پیش آیا کہ ولی عہد خلافت امام علی رضا نے انگور کھانے کی وجہ سے یکایک انتقال کیا۔ مامون کو ان کی وفات کا سخت صدمہ ہوا۔ جنازہ کے ساتھ ننگے سر گیا اور رو رو کر کہنے لگا کہ ’’اے ابوالحسن تیرے بعد اب میں کہا جاؤں اور کیا کروں ۔‘‘ تین دن تک
Flag Counter