Maktaba Wahhabi

461 - 868
اور لذیذ و مقوی کھانے اور خوبصورت لباس اسی کی ایجاد ہیں ۔ غرض اس ایک شخص کی کوششوں اور ایجادوں نے نہ صرف تمام ملک اندلس بلکہ تمام یورپ پر اپنا اثر ڈالا۔ چھری کانٹے کے ساتھ کھانا کھانا بھی اسی کی ایجاد ہے اور یورپ والوں نے اندلس کے مسلمانوں ہی سے چھری کانٹے کے استعمال کو سیکھا تھا۔ علی بن نافع کو سلطان عبدالرحمن ثانی کے مزاج میں بخوبی رسوخ حاصل تھا اور سلطان اس کی بڑی عزت کرتا تھا، مگر اس نے کبھی کسی سیاسی معاملہ میں دخل نہیں دیا بلکہ اپنی تمام تر توجہ کو اصلاح معاشرت ہی کی جانب مبذول رکھا، اسی لیے وہ تمام ملک میں ہر دل عزیز و محبوب تھا اور کوئی اس کا دشمن و مخالف کبھی پیدا نہیں ہوا۔ اندلس والوں نے جہاں اس شخص کی وجہ سے لباس و غذا و مکان کے تکلّفات سیکھے وہاں انہوں نے موسیقی کا شوق بھی اس سے حاصل کیا دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ علی بن نافع نے اندلس پہنچ کر وہاں کے سپاہی پیشہ مسلمانوں کو عیش پسند اور نازک مزاج بنانے کی موثر کوشش کی۔ اندلس میں مالکی مذہب کا فروغ: قاضی یحییٰ بن یحییٰ مالکی کا اوپر ذکر آچکا ہے، انہی قاضی صاحب کی کوششوں سے سلطان حکم کے زمانے میں قرطبہ کے اندر ایک خطرناک بغاوت ہوئی جس کے نتیجے میں قرطبہ کی آبادی کا پانچواں حصہ، یعنی ایک دریا پار کا جنوبی محلہ بالکل ویران ہو گیا اور بیس پچیس ہزار آدمیوں کو اندلس سے جلا وطن ہونا پڑا تھا مگر قاضی صاحب آخر میں سلطان حکم کے مصاحبوں اور مشیروں میں داخل تھے، اب سلطان عبدالرحمن ثانی کی تخت نشینی کے بعد وہ سلطان عبدالرحمن کے مزاج میں بہت کچھ دخیل تھے۔ ان کو قاضی القضاۃ اور شیخ الاسلام کا عہدہ سلطان عبدالرحمن نے دینا چاہا۔ لیکن انہوں نے انکار کیا اور اس انکار کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ قاضی القضاۃ کے بھی افسر سمجھے جانے لگے عوام ان کے بے حد معتقد تھے اور مذہبی معالات میں ان کا فیصلہ سب سے آخری سمجھا جاتا تھا قاضی صاحب بہت بڑے کثیر التصانیف شخص تھے وہ امام مالک رحمہ اللہ کے شاگرد رشید تھے انہوں نے کئی سال تک امام مالک رحمہ اللہ کی خدمت میں رہ کر علم دین کو حاصل کیا تھا، اب سلطان عبدالرحمن ثانی کے عہد حکومت میں انہوں نے اپنے طرز عمل کے اندر بہت بڑی تبدیلی پیدا کر لی تھی، اب وہ اپنے اثر و رسوخ سے نہایت قابلیت کے ساتھ کام لے رہے تھے۔ وہ جس کسی شخص کی سفارش محکمۂ قضا میں کر دیتے تھے وہ کبھی رد نہ ہوتی تھی، لہٰذا ان تمام علماء نے جو کسی شہر یا قصبے کے قاضی بننا چاہتے تھے مالکی مذہب اختیار کیا اور اس طرح قاضی یحییٰ کی نگاہوں میں عزت و محبت کا مقام حاصل کر کے کہیں نہ کہیں کے قاضی بن گئے۔ اس غیر محسوس طرز عمل نے چند روز میں تمام ملک اندلس کو مالکی مذہب کا پیرو بنا دیا سلطان عبدالرحمٰن ثانی اپنے باپ کے زمانے سے امور سلطنت میں دخیل اور تمام
Flag Counter