Maktaba Wahhabi

192 - 868
ابو حرب و اہل دمشق: خلیفہ معتصم کے حالات میں اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ رجاء بن ایوب کو معتصم نے ابو حرب یمانی کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا تھا۔ رجاء بن ایوب نے کچھ دنوں انتظار کرنے کے بعد ابو حرب سے لڑائی کا سلسلہ جاری کیا۔ اسی اثناء میں معتصم باللہ نے وفات پائی اور واثق باللہ تخت نشین ہوا۔ وفات معتصم کی خبر سنتے ہی اہل دمشق باغی ہو گئے، انہوں نے اپنے امیر کو دارالامارت میں محصور کر لیا، اور لشکر کی فراہمی و ترتیب میں مصروف ہو کر جمعیت کثیر فراہم کر لی۔ یہ خبر سنتے ہی واثق باللہ نے رجاء بن ایوب کے پاس حکم بھیجا کہ پہلے اہل دمشق کی خبر لو۔ اس وقت رجاء بن ایوب مقام رملہ میں ابو حرب کے مقابل معرکہ آرائی میں مصروف تھا۔ اس حکم کی تعمیل میں اس نے بہت تھوڑی سی فوج ابو حرب کے مقابلہ پر چھوڑی اور باقی فوج کو لے کر دمشق کی جانب متوجہ ہوا۔ یہاں اہل دمشق نے مقابلہ کیا اور بڑی خون ریز جنگ ہوئی، جس میں ڈیڑھ ہزار آدمی اہل دمشق کے اور تین سو آدمی رجاء کی فوج کے مقتول ہوئے۔ اہل دمشق نے ہزیمت پا کر امن کی درخواست کی اور یہ بغاوت بالکل فرو ہو گئی۔ یہاں سے فارغ ہو کر رجاء رملہ کی جانب گیا۔ اور ابوحرب کو شکست دے کر گرفتار کر لیا۔ ابو حرب کے ہمراہیوں میں سے بیس ہزار آدمی ان لڑائیوں میں مقتول ہوئے تھے۔ اشناس کا عروج و زوال: خلیفہ واثق باللہ نے تخت نشین ہو کر اشناس کو جو ترکی غلام تھا اپنا نائب السلطنت بنا کر تمام ممالک محروسہ اسلامیہ کے سیاہ و سفید کا اختیار کامل دے دیا۔ وزیراعظم محمد بن عبدالملک بن زیات جو معتصم کے زمانے سے وزیراعظم چلا آتا تھا واثق کے زمانے میں بھی وزیراعظم رہا۔ یہ عہدہ جو اشناس کو سپرد کیا گیا اس کا نام نائب السلطنت تھا، جو واثق باللہ نے نیا ایجاد کیا تھا۔ نائب السلطنت خلیفہ کے تمام اختیارات کا استعمال کرتا اور وزیراعظم کا اسی طرح افسر و حاکم تھا جیسے خلیفہ۔ اب تک کسی خلیفہ نے ایسے وسیع اختیارات کسی دوسرے کو نہیں دیے تھے۔ ترکوں کو اگرچہ افشین کے قتل سے ایک قسم کا نقصان و صدمہ پہنچا تھا لیکن ان کی فوجیں ، پلٹنیں ، رسالے بدستور موجود تھے۔ ان کی قدر و منزلت بھی بدستور موجود تھی۔ اب واثق باللہ کے تخت نشین ہونے پر اشناس کو جب حکومت اسلامیہ میں سیاہ و سفید کے اختیارات کامل عطا ہوئے تو یوں سمجھنا چاہیے کہ تمام عالم اسلامی میں ترکوں ہی کی حکومت قائم ہو گئی اشناس کو یہ حکومت زیادہ دنوں راس نہ آئی اور جلد ہی اس کے اختیارات پر بھی حد بندی قائم ہو گئی مگر یہ ایک ایسی نظیر قائم ہوئی جو بعد میں دولت عباسیہ کے زوال و بربادی کا
Flag Counter