تھی۔ اس کی رنگت میں سفیدی کے ساتھ زردی بھی جھلکتی تھی۔ آنکھوں کی سفیدی میں سیاہ تل بھی نمودار تھا۔ یہ بہت بڑا شاعر اور ادیب تھا۔ عربی ادب میں وہ مامون کا ہم پلہ بلکہ اس سے بھی فائق تھا۔ مگر فلسفہ اور علوم حکمیہ میں مامون سے کمتر تھا۔ اس نے مامون الرشید کی علمی مجلسیں دیکھی تھیں ۔ اس کو علم و فضل کا شوق تھا، اسی لیے اس کو مامون صغیر یا مامون ثانی کہتے تھے۔
واثق کو عربی اشعار اس قدر یاد تھے کہ خلفاء عباسیہ میں کسی کو اتنے اشعار یاد نہ تھے۔ اپنے باپ کی طرح کھانے پینے کا اس کو بھی بہت شوق تھا۔ بہت پر خور و خوش خور تھا۔ شاعروں اور ادیبوں کو بڑے بڑے انعام وصلے دیتا تھا۔ اہل علم کی قدر کرتا تھا اور ان کے ساتھ تعظیم و تکریم کا برتاؤ ضروری سمجھتا تھا۔ مگر خلق قرآن کے مسئلہ کا خبط اپنے باپ سے وراثت میں پایا تھا۔ اور اس معاملہ میں یہاں تک غلو اختیار کیا تھا کہ اکثر بڑے بڑے علماء کو ثواب سمجھ کر اس نے اپنے ہاتھ سے قتل کیا۔
آخر عمر میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ مسئلہ خلق قرآن کے متعلق اس نے اپنی سرگرمی کم یا بالکل موقوف کر دی تھی۔ وہ واقعہ یہ تھا کہ ابو عبدالرحمن عبداللہ بن محمد ازدی جو امام ابو داؤد اور نسائی کے استاد تھے مسئلہ خلق قرآن کے متعلق مخالف عقیدہ رکھنے کے سبب گرفتار ہو کر آئے اور دربار میں پیش ہوئے، وہاں قاضی احمد بن ابی دؤاد سے، جو معتصم کے زمانے سے دربار میں وزیراعظم کے برابر مرتبہ رکھتے اور خلق قرآن کے قائل تھے، اس مسئلہ میں بحث ہوئی۔
ابو عبدالرحمن نے ان سے سوال کیا کہ تم پہلے مجھ کو یہ تو بتا دو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کا علم تھا یا نہیں کہ قرآن مخلوق ہے۔
قاضی احمد نے کہا کہ ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم تھا۔
ابو عبدالرحمن نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو قرآن کے مخلوق ہونے کے عقیدہ کی تعلیم دی یا نہیں ۔قاضی احمد نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس کے متعلق کوئی حکم نہیں فرمایا۔
ابو عبدالرحمن نے کہا کہ جس عقیدہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو تعلیم نہیں دی اور باوجود علم رکھنے کے لوگوں کو اس کے ماننے پر مجبور نہیں کیا۔ تم اس کے متعلق لوگوں کی خاموشی کو کیوں کافی نہیں سمجھتے؟ اور ان کو کیوں اس کے ماننے اور اقرار کرنے پر مجبور کرتے ہو؟ یہ سنتے ہی واثق باللہ چونک پڑا اور دربار سے اٹھ کر اپنی محل سرائے میں چلا گیا۔ اور چار پائی پر لیٹ کر بار بار یہ کہتا رہا کہ ’’جس معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار کی ہم اس میں سختی کر رہے ہیں ۔‘‘ پھر حکم دیا کہ ابو عبدالرحمن کو آزاد کر کے اس کے وطن میں بہ آرام واپس پہنچا دو اور تین سو دینار سرخ بطور انعام دے دو۔
|