بتدریج تمام خراسان کو خالی کرا لیا اور قابض و متصرف ہو کر اپنی مستقل حکومت قائم کی۔
طاہر بن حسین کی اولاد نے خراسان پر اب تک مسلسل حکومت کی تھی، اس لیے خراسان کے مستقل اسلامی سلطنتوں کے سلسلہ میں سب سے پہلے خاندان طاہریہ کا نام لیا جاتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ خاندان طاہریہ کا تعلق برابر دربار خلافت سے رہا اور اس خاندان کا کوئی نہ کوئی شخص بغداد کا افسر پولیس بھی ضرور رہا۔ خلفاء عباسیہ میں سے کسی کو یہ جرائت نہ ہوئی کہ خاندان طاہریہ کی حکومت سے خراسان کو نکال لے، مگر طاہریہ خاندان ہمیشہ اپنے آپ کو خلفاء عباسیہ کا نوکر اور محکوم سمجھتا، اور خلفاء عباسیہ سے سند گورنری حاصل کرتا اور خراج مقررہ بھی برابر بھیجتا رہا، لیکن یعقوب بن لیث نے جو حکومت قائم کی یہ اپنی نوعیت میں طاہریہ سلطنت سے جداگانہ اور خود مختارانہ تھی، جو دولت صفاریہ کے نام سے مشہور ہے، اس کے تفصیلی حالات آئندہ اپنے مقام پر بیان ہوں گے۔
معتز باللہ کی معزولی اور موت:
خلیفہ معتز ترک سرداروں کے قبضہ میں تھا، وہ جو چاہتے کرتے تھے، خزانہ بالکل خالی ہو گیا تھا، بڑے بڑے سرداروں نے خزانہ پر خود تصرف کر لیا تھا، فوج کے آدمی خلیفہ سے اپنے وظائف کا تقاضہ کرتے تھے، خلیفہ سخت مجبور تھا، آخر ایک روز ترکوں نے جمع ہو کر امیرالمومنین کے دروازے پر جا کر شور و غل مچایا اور کہا کہ ہم کو کچھ دلوائیے، ورنہ ہم صالح بن وصیف کو جو آج کل آپ پر قبضہ کیے ہوئے ہے قتل کر ڈالیں گے۔
صالح بن وصیف ایک ترک سردار تھا، خلیفہ اس سے بہت ہی ڈرتا تھا، اس شورش کو دیکھ کر معتز اپنی ماں فتحیہ ردمی کے پاس گیا کہ کچھ مال ہو تو اس ہنگامہ کو فرو کر دوں ، فتحیہ کے قبضہ میں بہت سا مال تھا، مگر اس نے دینے سے انکار اور ناداری کا عذر کیا، ترکوں نے صالح بن وصیف اور محمد بن بغا صغیر اور بابکیال کو اپنا شریک بنا لیا اور ان سرداروں کی معیت میں مسلح ہو کر قصر خلافت کے دروازے پر آئے اور معتز کو بلایا، خلیفہ معتز نے کہلا بھیجا کہ میں نے دوا پی ہے، بیمار اور بہت کمزور ہوں ، باہر نہیں آ سکتا، یہ سن کر ترک قصر خلافت میں زبردستی گھس گئے اور خلیفہ معتز کی ٹانگ پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے باہر لائے۔ اس کو مارا، گالیاں دیں اور صحن مکان میں برہنہ سر دھوپ میں کھڑا کر دیا،پھر ہر ایک شخص جو گزرتا تھا اس کے منہ پر طمانچہ مارتا تھا، یہاں تک کہ جب خلیفہ کی بے عزتی حد کو پہنچ گئی تو اس سے کہا کہ اپنی خلافت سے دست برداری لکھ دو، معتز نے اس سے انکار کیا تو قاضی القضات حسین بن ابی شوراب کو بلایا اور اراکین سلطنت طلب کیے گئے، ایک محضر لکھا، اس پر قاضی صاحب اور تمام اراکین سلطنت سے دستخط کرائے اور معتز کو معزول کر کے
|