میں اور لوگوں کو بھی شریک کیا گیا۔ ۱۰ ذوالحجہ ۳۳۹ھ یعنی بروز عیدالاضحی اس سازش کا انکشاف ہو گیا اور خلیفہ مع ولی عہد قتل ہوتے ہوتے بچ گئے۔ خلیفہ نے اپنے بیٹے عبداللہ اور فقیہ عبدالباری دونوں گرفتار کر کے جیل خانے بھجوا دیا۔ پھر اسی روز اپنے بیٹے عبداللہ کو جیل خانے سے نکال کر قتل کرایا، فقیہ صاحب نے جب عبداللہ کے قتل ہونے کا حال سنا تو خود ہی جیل خانے میں خود کشی کر کے ہلاک ہو گئے۔
۳۴۴ھ میں رذمیر بادشاہ جلیقیہ کے فوت ہونے پر اس کا بیٹا اردونی چہارم تخت نشین ہوا اور خلیفہ عبدالرحمن ناصر کی خدمت میں سفیر بھیج کر اپنی حکومت اور باپ کی جانشینی کی اجازت چاہی۔ خلیفہ نے اس کی تخت نشینی کو منظور کر کے اجازت نامہ بھیج دیا۔ ۳۴۵ھ میں فرڈی نند سردار قسطلہ نے اردونی چہارم کو اپنا سفارشی بنا کر خلیفہ کی خدمت میں اپنی مستقل ریاست و حکومت کے تسلیم کیے جانے کی درخواست بھیجی۔ خلیفہ نے فرڈی نند کی اس دوخواست کو منظور کر لیا اور اس کو ریاست قسطلہ کا مستقل حاکم و فرمانروا بنا دیا۔ فرڈی نند اب تک ریاست جلیقیہ یعنی رذمیر کا ماتحت سمجھا جاتا تھا۔ لیکن چونکہ اردونی چہارم کو تحت نشین کرانے میں فرڈی نند نے خاص طور پر خدمات انجام دی تھیں ۔ اس لیے اردونی چہارم نے سفارش کر کے اس کو بھی مستقل فرمانروا اور خود مختار رئیس بنوا دیا۔ اس سے قبل یہ صورت پیش آ چکی تھی کہ شانجہ جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے اپنی آبائی ریاست لیون پر قابض ہو چکا تھا اور کئی برس سے ریاست لیون ریاست جلیقیہ سے جدا شانجہ کے تصرف میں تھی۔ ریاست نوار میں اس کی نانی طوطہ حکمران تھی شانجہ مٹاپے کے مرض میں مبتلا ہو کر اس قدر موٹا ہو گیا تھا کہ گھوڑے پر چڑھنا تو بڑی بات ہے پیدل بھی دو قدم نہیں چل سکتا تھا۔ ۴۴۶ھ میں فرڈی نند اور اردونی چہارم نے مل کر شانجہ کو ریاست لیون سے بے دخل کر دیا۔ شانجہ اپنی نانی طوطہ کے پاس ریاست نوار میں چلا گیا ریاست نوار میں شانجہ کا ایک ماموں بادشاہ تھا مگر عنان حکومت ان کی نانی ہی کے ہاتھ میں تھی۔ جو قابلیت و تجربہ کاری کی وجہ سے اپنے بیٹے شاہ نوار کی سرپرست و اتالیق بھی تھی ملکہ طوطہ نے خلیفہ کی خدمت میں بہت سے تحفے اور ہدیئے بھیج کر درخواست کی کہ خلیفہ شانجہ کا ملک اردونی سے واپس دلا دے اور ایک طبیب قرطبہ سے بھیج دے جو شانجہ کے مرض کا علاج کرے۔ خلیفہ نے ایک شاہی طبیب کو نوار کی فوراً روانہ کر دیا اور ملک کے واپس دلانے کا مسئلہ غور و تامل کے لیے دوسرے وقت پر ٹال دیا۔ طبیب کے علاج سے شانجہ کو آرام ہو گیا اور اس کی پہلی چستی و چالا کی پھر واپس آ گئی۔
دربار خلافت میں تین عیسائی بادشاہ بحیثیت فریادی:
اس کے بعد ۴۴۷ھ میں ملکہ طوطہ نے یہی مناسب سمجھا کہ میں خود خلیفہ کی خدمت میں حاضر ہو کر
|