اہل عرب تو قدیم ہی سے تجارت پیشہ تھے، لیکن خلافت عباسیہ کے عہد حکومت میں ایرانیوں کو بھی تجارت کا شوق ہو گیا، اور اس شوق نے یہاں تک ترقی کی کہ مسلمان سوداگر شمال میں بحر شمالی کے ساحل تک اور جنوب میں افریقہ کے جنوب تک پہنچنے لگے، جس کے ثبوت میں خلفائے عباسیہ کے عہد کی بغدادی مصنوعات سویڈن اور مڈغا سکر میں علمائے طبقات الارض نے تلاش کی ہے، بعض خلفاء مثلاً واثق باللہ نے باہر سے آنے والے سوداگروں اور تمام اشیاء درآمد پر محصول معاف کر دیا تھا۔
سرکاری محاصل:
زراعت اور غلہ کی پیداوار پر بجائے نقد روپیہ وصول کرنے کے عموماً (بٹائی) مقاسمہ کا قاعدہ جاری تھا، پیداوار کا ۵/۲ حصہ سرکاری خزانہ کے لیے لیا جاتا تھا اور ۵/۳ کاشت کار کو چھوڑ دیا جاتا تھا، جہاں کاشت کار کو آبپاشی کے لیے محنت کرنی پڑتی تھی وہاں کاشت کار کو ۴/۳ چھوڑ دیا جاتا تھا، اور لگان سرکاری صرف چوتھائی حصہ لیا جاتا تھا، بعض زمینوں کی پیداوار پر صرف ۵/۱ لیا جاتا تھا اور ۵/۴ کاشت کار کے قبضہ میں رہتا تھا۔
انگوروں اور کھجوروں وغیرہ کے باغات پر اسی مقاسمہ کے اصول کو مد نظر رکھ کر نقد لگان لگا دیا جاتا تھا اور نقدی کی شکل میں وصول ہوتا تھا۔ بعض صوبے مثلاً بحرین، عراق، جزیرہ وغیرہ میں بکثرت ایسے کا شتکار تھے کہ ان کی زمینوں پر خلافت راشدہ کے زمانہ میں بوقت فتح معاہدہ کے ذریعہ پیداوار پر محصول مقرر کر دیا گیا تھا وہ گویا استمراری بندوبست تھا، ان کاشت کاروں پر کوئی اضافہ نہیں ہو سکتا تھا۔
محصول تشخیص کرنے کے وقت اکثر زمینیں بلا محصول چھوڑ دی جاتی تھیں اور کاشت کاروں کو ذرا ذرا سے بہانوں پر محصول معاف کر دیا جاتا تھا، حکومت کی نظر اس بات پر زیادہ رہتی تھی کہ کاشت کار خوش حال اور فارغ البال رہیں تاکہ علاقہ کی آبادی اور سرسبزی میں فرق نہ آنے پائے، ملک کا بہت بڑا رقبہ ایسا تھا کہ اس پر پیداوار کا صرف دسواں حصہ مقرر تھا۔ ذمی جن سے فوجی خدمت نہیں لی جاتی تھی، اور ان کے جان و مال کی حفاظت سلطنت کے ذمہ تھی، فوجی مصارف کے لیے نہایت معمولی ٹیکس ادا کرتے تھے، جو اپنی خوشی سے فوجوں میں بھرتی ہوجاتے ان پر ٹیکس یعنی جزیہ نہیں لگایا جاتا تھا، مسلمانوں کے لیے فوجی خدمت لازمی تھی، ذمیوں میں سے بھی بوڑھوں ، بچوں اور ناداروں کو جزیہ معاف کر دیا جاتا، مسلمانوں سے ایک اور ٹیکس صدقات کے نام سے وصول کیا جاتا تھا، مال دار مسلمانوں سے زکوٰۃ کے نام سے ایک ٹیکس وصول ہوتا تھا، اس کو انکم ٹیکس سمجھنا چاہیے۔
|