سامرا میں آیا۔
مگر اس شکست سے زنگیوں کا فتنہ فرو نہیں ہوا، انہوں نے اپنی جمعیت فراہم کر کے پھر قتل و غارت کا بازار گرم رکھا اور ۲۷۰ھ تک اسی طرح بصرہ اور عراق کے اکثر حصہ پر مستولی رہے۔
یعقوب بن لیث کی گورنری:
معتمد کی تخت نشینی کے پہلے ہی سال یعنی ۲۵۶ھ میں محمد بن واصل بن ابراہیم تمیمی نے جو اصل میں عراق عرب کا باشندہ تھا، اور بہت دنوں سے فارس میں رہتا تھا، بعض کردوں کو اپنے ساتھ شامل کر کے فارس کے گورنر حرث بن سیما کو قتل کیا اور صوبہ فارس پر قابض و متصرف ہو گیا، ادھر یعقوب بن لیث صفار کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو وہ فارس پر حملہ آور ہوا۔
معتمد نے اس وقت فارس کو یعقوب صفار کے پنجے سے بچانا ضروری سمجھ کر یعقوب بن لیث کے پاس طخارستان و بلخ کی سند گورنری معتمد سے لکھوا کر بھجوا دی اور کہلا بھیجا کہ تم فارس کا خیال ترک کر دو اور بلخ و طخارستان میں اپنی حکومت قائم کرو، یعقوب بن لیث نے اس کو بہت غنیمت سمجھا اور بلخ و طخارستان کا بخوبی بندوبست کر کے کابل پہنچا اور رتبیل کو گرفتار کیا، اس کے بعد خلیفہ کی خدمت میں تحف و ہدایا روانہ کیے۔ پھر سجستان آیا سجستان سے ہرات اور ہرات سے خراسان کے شہروں کو قبضہ میں لانے لگا، ۲۵۹ھ میں یعقوب بن لیث نے خراسان پر قبضہ کر کے وہاں سے خاندان طاہریہ کے افراد کو خارج کر دیا، خلیفہ معتمد نے ایک تہدید آمیز فرمان بھیجا کہ تم انہی شہروں پر قانع رہو، جن کی سند گورنری تم کو دی گئی ہے، خراسان پر تصرف نہ کرو، مگر یعقوب نے اس فرمان پر کوئی التفات نہ کیا۔
۲۶۰ھ میں حسن بن زید علوی نے دیلم سے فوج لے کر یعقوب پر حملہ کیا، سخت لڑائی کے بعد حسن بن زید ہزیمت پا کر دیلم کی طرف واپس گیا، اور یعقوب نے ساریہ اور آمل پر قبضہ کر لیا، اس کے بعد سجستان کی طرف چلا گیا۔
بغاوت موصل :
معتمد نے موصل کی گورنری پر ایک ترک سردار اساتگین کو مامور فرمایا، ترکوں نے اہل موصل پر ظلم و زیادتی شروع کی، نتیجہ یہ ہوا کہ اہل موصل نے یحییٰ بن سلیمان کو اپنا امیر و حاکم بنا لیا اور ترکوں کو مار کر نکال دیا۔
خلیفہ کو اس بغاوت کا حال معلوم ہوا، ترکوں کی فوج بھیجی گئی، سخت سخت معرکے ہوئے مگر انجام یہ ہوا کہ خلیفہ کی فوج یعنی ترکوں کو ناکامی ہوئی اور موصل میں یحییٰ بن سلیمان کی حکومت قائم ہو گئی… یہ واقعہ ۲۶۰ھ اور ۲۶۱ھ کا ہے۔
|