Maktaba Wahhabi

447 - 868
عیسائی ریاستیں قائم کرنے کی تجاویز سوچی گئیں ۔ مسلمانوں نے بارہا جبل البرتات کو طے کیا اور فرانس کے میدانوں میں اپنے گھوڑے دوڑائے۔ لیکن فرانسیسیوں کو جبل البرتات کا عبور کرنا ہمیشہ دشوار اور نقصان رساں ثابت ہوا۔ مسلمانوں کے مقابلے کے لیے ایک جدید ریاست کا قیام: شارلیمین شہنشاہ فرانس نے جنوبی فرانس کا ایک ٹکڑا جو جبل البرتات کے دامن میں تھا الگ کر کے ایک چھوٹی سی جدید ریاست قائم کی اور وہاں کا حاکم فرانس کا ایک رئیس بوریل نامی مقرر کیا گیا۔ اس ریاست کا نام ’’گاتھک مارچ‘‘ رکھا گیا اور اس کے رئیس کو خود مختار حاکم قرار دے کر اس امر کی ہدایت کی گئی کہ وہ مسلمانوں کے لیے جبل البرتات کو ناقابل گزر بنائے اور ان کے روکنے کے لیے ہمیشہ مستعد و تیار رہے۔ اس ریاست کو بادشاہ ایکیوٹین کی سرپرستی میں دے دیا گیا۔ جبل البرتات کے دامن میں جا بجا مناسب موقعوں پر زبردست قلعے تعمیر کیے گئے اور اندلس کے شمالی عاملوں کے ساتھ تعلقات اور دوستی پیدا کرنے کے ذرائع اس امید پر سوچے گئے کہ ان کو بغاوت پر بآسانی آمادہ کیا جا سکے، ان تمام عزائم اور تیاریوں کی اطلاع خلیفہ بغداد کو بھی دی گئی اور ہارون الرشید کی طرف سے دوستی بڑھانے اور تحف و ہدایا بھیجنے کے ذریعہ ہمت افزائی ہوئی۔ اس نئی ریاست گاتھک مارچ نے جبل البرتات کے مشرقی و جنوبی حصے پر بھی قبضہ جمایا اور شمالی اندلس کے عیسائیوں نے اس کے لیے ہر قسم کی سہولت بہم پہنچائی۔ غرض یہ نئی ریاست ایسٹریاس کی ریاست کے نمونہ پر ایک پہاڑی ریاست بن گئی اور جس طرح ایسٹریاس کی ترقی و طاقت میں پادریوں نے خاص طور پر اضافہ کی کوشش کی تھی، اسی طرح اس ریاست کے طاقتور بنانے کو بھی مذہبی کام قرار دیا گیا وہ عیسائی جو ایکیوٹین، ایسٹریاس یا فرانس کی حکومتوں اور حاکموں سے کسی سبب سے ناراض و ناخوش تھے وہ بجائے اس کے کہ مسلمانوں کی حکومت میں آکر آباد ہوتے اس نئی ریاست میں آ آکر آباد ہونے لگے اور کوہی علاقہ جو بالکل ویران و غیر آباد پڑا ہوا تھا آباد اور پر رونق ہونے کے علاوہ طاقتور بھی خوب ہو گیا۔ غدار مسلم عاملوں کی عیسائیوں کی ہمت افزائیاں : ۱۸۴ھ کے آخر میں حکم کو مشکل سے اطمینان حاصل ہوا تھا کہ چند ہی روز کے بعد ۱۸۵ھ میں عیسائیوں نے شمالی اندلس میں پھر ہلچل پیدا کرا دی اور بعض شمالی شہروں کے عاملوں نے شارلیمین کو خلیفہ بغداد کا دوست اور ایجنٹ سمجھ کر اور اس کی حمایت و اعانت کو جائز جان کر سلطان حکم کے خلاف آمادہ ہو جانا ہی ثواب کا کام سمجھا، کیونکہ سلطان حکم کی مذہبیت اور دینداری پر عام لوگوں کو شک تھا اور اکثر اس پر
Flag Counter