Maktaba Wahhabi

317 - 868
چوتھا باب:سلطنت کے قابل تذکرہ اہل کار اور عہدے دار پہلی فصل خلافت بنو امیہ ایک فاتح و ملک گیر سلطنت تھی اور اس کے زمانہ میں عرب قوم فاتح اور تمام اقوام مفتوح سمجھی جاتی تھیں ، عربوں میں مذہبی جوش موجود تھا اور قرآن کریم و سنت رسول اللہ کے سوا کوئی قانون ان کے لیے واجب التعمیل اور نافذ الفرمان نہ ہو سکتا تھا۔ مسلمان آپس میں بھی لڑتے تھے مگر ان لڑائیوں اور چڑھائیوں کے باوجود عرب و شام و مصر و عراق وغیرہ اسلامی ممالک میں باشندوں کی عام زندگی اور قیام امن کسی پیچیدہ نظام سلطنت کی خواہاں نہ تھی، خلیفہ اہم امور میں مشورے لیتا تھا مگر مشورے لینے کے لیے مجبور بھی نہ تھا، خلیفہ کو بلا طلب بھی مشورے دیے جاتے تھے اور بسا اوقات اس کو وہ منظور بھی کرنے پڑتے تھے، حکومت میں عام طور پر عربی سادگی موجود تھی، معمولی بدوی خلیفہ تک پہنچ سکتے تھے، اور ان بادیہ نشینوں کی طلاقت لسانی کو خلیفہ کا رعب حکومت مطلق کم نہیں کر سکتا تھا۔ خلیفہ صوبوں اور ولایتوں کی حکومت پر اپنے نائب مقرر کر کے بھیجتا تھا اور ان کو اس صوبہ یا ولایت میں کامل شاہانہ اختیارات حاصل ہوتے تھے، خلیفہ جس طرح تمام عالم اسلام کا فرماں روا تھا اسی طرح وہ تمام عالم اسلام کا سپہ سالار اعظم بھی ہوتا تھا اسی طرح صوبوں اور ولایتوں کے عامل اپنے صوبے کے بادشاہ بھی ہوتے تھے اور سپہ سالار بھی، وہی مذہبی پیشوا اور نمازوں کے امام ہوتے تھے اور وہی قاضی القضاۃ بھی، خلیفہ کو بھی جب کسی مذہبی مسئلہ کی نسبت شک ہوتا تھا تو علماء اور فقہاء سے دریافت کرنے میں مطلق عاری نہ ہوتا تھا، اسی طرح عاملوں اور والیوں کو بھی علماء اور فقہاء سے امتزاج کرنا پڑتا تھا، بعض اوقات صوبوں میں ایک عامل یعنی گورنر مقرر ہوتا تھا اور اس کے ساتھ ہی دوسرا قاضی یا چیف جج دربار خلافت سے مقرر ہوتا تھا۔ عامل کا کام ملک میں انتظام قائم رکھنا، فوج کشی کرنا، دشمن کی مدافعت کے لیے آمادہ رہنا، رعایا کی حفاظت کرنا اور محاصل ملکی وصول کر کے خزانہ میں جمع کرنا ہوتا تھا، اور قاضی کا کام حدود شرعیہ کو جاری کرنا، انفصال خصومات کی خدمت انجام دینا اور احکام شرعی کی پابندی کرانا ہوتا تھا، قاضی عامل کا محکوم نہ ہوتا تھا جس کے متعلق تمام مالی انتظام ہوتا تھا، اس حالت میں عامل صرف سپہ سالار افواج ہوتا تھا۔
Flag Counter