رہنے لگا، ابو الہیجا کے بھائی حسین و ابو الہیجا دونوں بھائیوں کو مع دوسرے رشتہ داروں کے جیل خانہ میں قید کر دیا گیا جو ۳۰۵ھ میں رہا ہوئے۔
ترکوں اور رومیوں کے حملہ :
۲۹۱ھ میں رومیوں نے ایک لاکھ فوج سے بلاد اسلامیہ پر حملہ کیا مگر اس حملہ میں ان کو کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی، سرحدی سرداروں نے مار کر بھگا دیا، ۲۹۳ھ میں ایک نئے حملہ آور گروہ کا ظہور ہوا، یعنی ترکوں نے جو ماوراء النہر کے شمالی پہاڑوں اور جنگلوں میں رہتے تھے ماوراء النہر پر حملہ کیا، اس طرف سے یہ سب سے پہلا حملہ تھا جو ماوراء النہر پر ہوا، ان وحشی اور جنگلی حملہ آوروں کی تعداد بے شمار تھی اور ایک سیلاب تھا جو امنڈ آیا تھا۔
مگر اسماعیل سامانی حاکم ماوراء النہر نے بڑی ہمت اور استقلال کے ساتھ تمام فوجوں کو یک جا فراہم کر کے ان حملہ آوروں کو اچھی طرح سبق دیا، ہزارہا گرفتار اور ہزارہا مقتول ہوئے، باقی بھاگ گئے، اسی سال رومیوں نے مسلمانوں سے صلح کی درخواست کی اور حسب دستور سابق قیدیوں کا تبادلہ عمل میں آیا، مگر اس صلح کے بعد ہی رومیوں نے شہر قورس پر شب خون مارا اور ہزارہا مسلمان بے خبری میں شہید اور گرفتار ہوئے، جامع مسجد کو رومیوں نے جلا دیا اور واپس چلے گئے اسی سال اسماعیل سامانی نے بلاد دیلم اور ترکوں کے بعض علاقے پر بزور شمشیر قبضہ کیا، ۲۹۴ھ میں مسلمانوں نے طرطوس کی طرف سے بلادر وسیہ پر حملہ کر کے بہت سے رومیوں کو گرفتار کیا جن میں ایک بطریق بھی تھا، اس بطریق نے بطیب خاطر اسلام قبول کیا۔
مکتفی باللہ کی وفات :
ماہ جمادی الاول ۲۹۵ھ میں ساڑھے چھ برس حکومت کر کے مکتفی باللہ بغداد میں فوت ہو کر محمد بن طاہر کے مکان میں مدفون ہوا، وفات سے پہلے اپنے بھائی جعفر کو اپنا ولی عہد بنایا تھا مکتفی نے مرتے وقت بیت المال میں ڈیڑھ کروڑ دینار چھوڑے، جعفر بن معتضد کی عمر اس وقت تیرہ برس کی تھی، اس نے تخت نشین ہو کر اپنا لقب مقتدر باللہ تجویز کیا۔
مقتدر باللہ !
مقتدر باللہ بن معتضد باللہ کا اصل نام جعفر اور کنیت ابو الفضل تھی۔ ماہ رمضان ۲۸۲ھ میں ایک رومیہ ام ولد غریب نامی کے بطن سے پیدا ہوا۔ مکتفی باللہ نے مرنے سے قبل جب اپنے ولی عہد کی نسبت لوگوں سے مشورہ کیا تو لوگوں نے اس کو یقین دلایا کہ مقتدر باللہ بالغ ہو گیا ہے، تب اس نے مقتدر
|