ہوئے قاہرہ چلا گیا۔ افتگین کی چونکہ سب سے زیادہ عزت و توقیر ہوتی تھی اور وہ وزیر اعظم بن گیا تھا۔ لہٰذا سابق وزیر اعظم یعقوب بن مکس نے افتگین کو زہر دے کر مار ڈالا۔ عزیز کو جب یہ حال معلوم ہوا تو اس نے یعقوب کو گرفتار کر کے چالیس روز قید میں رکھا اور پانچ لاکھ دینار جزمانہ وصول کیا۔ اس کے بعد پھر یعقوب کو قلم دان وزارت عطا کر دیا۔
افتگین جب دمشق سے جوہر کے تعاقب میں روانہ ہوا تھا تو قسام نامی ایک شخص کو دمشق کی حکومت پر نیابتاً مقرر کر آیا تھا۔ اس کے بعد افتگین کو دمشق جانے کا موقع ہی نہ ملا۔ قسام کی حکومت وہاں خوب مضبوطی سے قائم ہو گئی تھی۔ جب قسام نے افتگین کے مصر جانے کی خبر سنی تو اس نے دمشق میں عزیز کے نام کا خطبہ شروع کر دیا تھا۔ اب ان لڑائیوں سے فارغ ہو کر عزیز نے ابومحمود بن ابراہیم کو دمشق کا والی مقرر کر کے روانہ کیا۔ قسام نے ابو محمود کو دمشق میں داخل نہ ہونے دیا۔ عزیز نے قسام کی سرکوبی کے لیے اور فوج بھیجی۔ بکچور خادم سیف الدولہ نے جو حمص پر قابض و متصرف تھا حاکم مصر کی فوجوں کو رسد پہنچائی۔ ادھر مفرج بن جراح قبیلہ طے کا سردار عربوں کی جمعیت لے کر برسر مقابلہ ہوا۔ چند سال کی معرکہ آرائیوں اور لڑائیوں کے بعد عزیز نے بکچور کو اپنی طرف سے دمشق کا والی مقرر کر دیا۔ بکچور نے دمشق پر قابض ہو کر یعقوب بن مکس وزیر السلطنت مصر کے آور دوں کو اس لیے دمشق سے نکال دیا کہ یعقوب نے بکچور کے والی دمشق بنائے جانے کی مخالفت کی تھی۔ چند روز کے بعد یعقوب نے بکچور کی شکایت کر کے اس کے خلاف عزیز کو آمادہ کر دیا۔ مصر سے فوج آئی اور بکچور نے بعد مقابلہ شکست کھائی۔ ادھر سیف الدولہ نے شام پر چڑھائی کی۔ دوسری طرف سے بادشاہ قسطنطنیہ نے فوج کشی کی۔ غرض دمشق کا علاقہ ۳۸۵ھ تک مسلسل لڑائیوں اور خونریزیوں کا مرکز رہا۔
عزیزکی وفات :
رومی فوجوں کے دمشق کی طرف حرکت کرنے کا حال سن کر عزیز نے ۳۸۵ھ میں خود قاہرہ سے مع فوج دمشق کی جانب کوچ کیا۔ اور رومیوں کے خلاف جہاد کی منادی کرائی۔ مگر مقام بلبیس میں پہنچ کر بیمار ہو گیا۔ عجیب اتفاق ہے کہ اس کا باپ بھی جب دمشق کے ارادے سے روانہ ہوا تھا۔ تو اسی مقام پر پہنچ کر مرض الموت میں گرفتار ہوا تھا۔ غرض آخر رمضان ۳۸۶ھ کئی ماہ بیمار رہ کر فوت ہوا اور اس کا بیٹا ابو منصور باپ کی جگہ تخت نشین ہوا اور حاکم بامر اللہ کا لقب اختیار کیا۔
منصور حاکم بن عزیز عبیدی :
منصور الملقب بہ حاکم نے تخت نشین ہو کر امور سلطنت کا اختیار حسن بن عمار کتامی کے ہاتھ میں
|