عیسائیوں کے اس فتنے نے سلطان عبدالرحمن کو اس کی عمر کے آخری پانچ چھ سال میں بہت پریشان اور غمگین رکھا۔ اور اس کی زندگی میں اس عجیب و غریب قسم کے فتنے کا مکمل طور پر سدباب نہ ہوسکا بلکہ اس کا کم و بیش سلسلہ جاری رہا۔
عبدالرحمن کی وفات:
آخر ماہ ربیع الاول ۲۳۸ھ میں اکتیس سال چند ماہ حکومت کرنے کے بعد عبدالرحمن ثانی نے وفات پائی اور اس کا بیٹا محمد تخت نشین ہوا۔
عبدالرحمن کے عہد حکومت پر تبصرہ:
سلطان عبدالرحمن ثانی کا عہد حکومت اگرچہ لڑائی جھگڑوں سے خالی نہیں رہا، تاہم اس سلطان نے رفاہ رعایا اور علوم و فنون کی طرف سے غفلت نہیں برتی۔ عبدالرحمن خود نہایت اعلیٰ درجہ کا عالم اور فلسفہ و شریعت کا خوب ماہر تھا۔ جامع مسجد قرطبہ میں متعدد کمرے تعمیر کرا کر اس میں اضافہ کیا۔ بہت سی مسجدیں ، پل اور قلعے تعمیر کرائے۔ نئی سڑکیں نکالیں مسافروں اور تاجروں کی سہولت کے سامان بہم پہنچائے۔ سر رشتہ تعلیم کی طرف اس کی توجہ ہمیشہ مبذول رہی۔ کسی قصبے اور گاؤں کو بلا مدرسہ نہیں چھوڑا۔ ہر ایک شہر اور قصبے میں اپنے عاملوں اور مجسٹریٹوں کے لیے دفتروں اور کچہریوں کے شاندار مکانات تعمیر کرائے ہر ایک شہر اور قصبے میں حمام بھی تعمیر کرائے۔
عبدالرحمن ثانی کو آرائش اور شان و شکوہ کا بڑا شوق تھا۔ رعایا کے سامنے عام منظروں میں کم نکلتا اور اکثر رعایا کی نگاہوں سے پوشیدہ رہتا تھا۔ اس کی طبیعت میں رحم و کرم کا مادہ زیادہ تھا سخت سزائیں دینے اور قتل کرانے میں ہمیشہ تامل کرتا۔ اس کے زمانے میں سلطنت کا خزانہ بہت ترقی کر گیا تھا۔ اس نے پہلے سے زیادہ خوبصورت سکے مسکوک کرائے دریائے وادیٔ الکبیر کے دونوں کناروں پر قرطبہ کے متصل متعدد باغات میووں کے لگائے اور ان کو عوام کے لیے وقف کر دیا تھا۔ یونانی فلسفہ کی کتابوں کے ترجمے کرائے، علمی مجالس مقرر کیں ۔ ایک مرتبہ ٹڈی دل کی کثرت نے کھیتوں کو کھا کر صفا چٹ کر دیا اور امساک باراں کے سبب ملک میں عام طور پر قحط پڑ گیا۔ سلطان نے اس موقع پر رعایا کی بڑی مدد کی اور پھر یہ قاعدہ مقرر کیا کہ غلہ کا ایک بہت بڑا ذخیرہ شاہی خزانہ سے خرید کر مہیا رکھا جائے تاکہ کسی ایسے ہی قحط کے موقع پر رعایا کے کام آ سکے۔
ولی عہدی:
سلطان عبدالرحمن کی ایک بیوی طروب نامی تھی۔ جس کے ساتھ اس کو محبت تھی۔ اس کے پیٹ
|