Maktaba Wahhabi

264 - 868
مستکفی نے اس کو بہت تلاش کرایا مگر وہ ہاتھ نہ آیا اور مستکفی کے عہد میں روپوش ہی رہا، مستکفی جب اس کی جستجو میں کامیاب نہ ہوا تو اس کا مکان منہدم کرا دیا۔ خلیفہ مستکفی کے تخت نشین ہوتے ہی توزون فوت ہو گیا، مستکفی نے ابو جعفر ابن شیرزاد کو امیر الامراء کا خطاب دیا، ابن شیرزاد نے تمام انتظامات و اختیارات اپنے ہاتھ میں لے کر بے دریغ روپیہ خرچ کرنا شروع کیا۔ خزانہ خالی ہو گیا، تمام انتظام درہم برہم ہو گیا چند ہی روز کے بعد بغداد میں چوریوں اور ڈاکہ زنیوں کی کثرت نے یہاں تک نوبت پہنچا دی کہ لوگ شہر چھوڑ چھوڑ کر جلا وطنی اختیار کرنے لگے۔ انتباہ ! سلطنت اسلامیہ کا رقبہ اور وسعت مملکت عہد بنو امیہ تک برابر ترقی پذیر رہا، حکومت اسلامیہ کا ایک ہی مرکز تھا اور دمشق کے دربار خلافت سے جو حکم جاری رہتا تھا اس کی تعمیل اندلس اور مراکش کے مغربی ساحل سے چین و ترکستان تک یکساں ہوتی تھی، خلافت اسلامیہ جب بنو عباس کے قبضہ میں آئی تو چند ہی روز کے بعد اندلس میں بنو امیہ کی ایک خود مختار سلطنت الگ قائم ہو گئی اور مسلمانوں کی سلطنت کے بجائے ایک کے دو مرکز ہو گئے۔ پھر چند روز کے بعد مراکش میں ایک تیسرا مرکز حکومت قائم ہوا، اس کے بعد افریقہ و مصر میں ایک اور حکومت قائم ہوئی۔ اب جس زمانہ کے حالات بیان ہو رہے ہیں یہ وہ زمانہ ہے کہ خلیفہ بغداد کی حکومت شہر بغداد میں بھی باقی نہیں رہی ہے، چند روز پہلے دجلہ و فرات کا دوآبہ خلیفہ کی حکومت میں شامل تھا، لیکن جب سے امیر الامراء کا عہدہ ایجاد ہوا، اس وقت سے اس دوآبہ کی حکومت امیر الامراء کے ہاتھ میں ہوتی تھی اور برائے نام وہ اپنے آپ کو خلیفہ کا محکوم اور نائب کہتا تھا۔ خاص شہر بغداد میں خلیفہ کے احکام کی قدر و منزلت تھی اور بغداد میں وہ سب سے بڑی طاقت سمجھی جاتی تھی، ہر ایک وہ شخص جو دوسروں کو مغلوب کر کے اپنی طاقت کا اظہار کر سکتا تھا، اپنے قوت بازو سے امیر الامراء بن سکتا اور خلیفہ کو مجبوراً اسے امیر الامراء کا خطاب دینا پڑتا تھا، خلیفہ کے ہاتھ میں طاقت اگرچہ کچھ نہ تھی مگر پھر بھی اس کو تھوڑی بہت آزادی ضروری حاصل تھی اور ایک قسم کا رعب و جلال بھی باقی تھا۔ لیکن اب معز الدولہ احمد بن بویہ ماہی گیر اہواز سے آکر بغداد اور خلیفہ پر مسلط ہوتا ہے، اس کو ملک کا خطاب ملتا ہے، اور اس کے بعد سے یکے بعد دیگرے ملوک ہوتے ہیں ، معز الدولہ نے خلیفہ کو نظر بند کر کے ایک معزز قیدی کی حیثیت سے رکھا اور شہر بغداد میں جو اثر اقتدار خلیفہ کو حاصل تھا وہ بھی چھین لیا۔ خلیفہ کا کام صرف یہ رہ گیا تھا کہ جب کوئی سفیر باہر سے آئے تو وہ خلیفہ کے دربار میں حاضر کیا جائے اور اس مصنوعی دربار میں خلیفہ کی پر شوکت نمائش کر کے حسب منشاء اس سے کام لیا جائے، کسی شخص کو
Flag Counter