بیوی ایک ترک سپاہی کی بیوی بن کر اس کے گھر میں مسرت و شادمانی کی زندگی بسر کر رہی ہے سخت صدمہ ہوا اور جب تک زندہ رہا اسی حسرت و ملال میں مبتلا رہا۔
فتح مصر و شام:
اوپر کسی باب میں ذکر آچکا ہے کہ خاندان ایوبیہ کے ساتویں بادشاہ الملک الصالح نے مصر میں ممکوکی فوج قائم کی تھی جس کو غلاموں کی فوج کہنا چاہیے، بہت جلد ان غلاموں نے مصر کے تخت پر قبضہ کر لیا اسی زمانہ کے قریب ہندوستان میں بھی غلاموں کا خاندان فرماں روا تھا، لیکن یہاں ہندوستان میں غلاموں کے خاندان کے صرف دو بادشاہ غلام تھے، باقی انہیں غلاموں کی اولاد نسلاً بعد نسل تخت نشین ہوتی رہی، مصر میں اس کے خلاف یہ دستور قائم ہوا تھا کہ ایک فرماں روا کے فوت ہونے پر غلاموں ہی میں سے کسی کو منتخب کر کے تخت حکومت پر بٹھایا جائے مصر کے یہ غلام بادشاہ مملوکی کہلاتے تھے، سلطان سلیم کے زمانہ تک ان کی سلطنت مصر میں قائم تھی اور انہی سلاطین مصر کی حفاظت میں عباسی خلفاء مصر کے اندر رہتے تھے مصر کی مملوکی سلطنت بھی بڑی شان دار اور معزز سلطنت تھی ان مملوکیوں نے عالم اسلام کی دو سب سے بڑی اور اہم خدمات انجام دی تھیں ، ایک تو انہوں نے فلسطین و شام کو عیسائیوں کے حملوں سے بچایا اور ہمیشہ کے لیے صلیبی چڑھائیوں کا استیصال کر دیا دوسرے انہوں نے مغلوں کے سیلاب عظیم کو آگے بڑھنے سے روک دیا اور چنگیز و ہلاکو وغیرہ کی فوجوں کو شکست دے کر بھگا دیا، عجب بات ہے کہ ان فتح مند مغلوں نے مصر کے غلاموں یعنی مملوکیوں سے جس طرح شکست کھائی اسی طرح ہندوستان کے غلام خاندان سے انہوں نے ہمیشہ نیچا دیکھا گویا ان کی قسمت میں یہی لکھا تھا کہ وہ مسلمانوں کے معزز ترین اور اعلیٰ خاندانوں کو برباد کریں ، لیکن جب مسلمانوں کے غلاموں سے معرکہ آراہوں تو شکست کھا کر بھاگیں ۔
بہرحال مصر کی مملوکی سلطنت مصر و شام و حجاز پر حکمران اور قدیم سے سلاطین عثمانیہ کے ساتھ کوئی پر خاش نہیں رکھتی تھی، سلطان فاتح کے بعد جب سلطان بایزید ثانی تخت نشین ہوا اور شہزادہ جمشید شکست کھا کر مصر پہنچا تو دربار قاہرہ کے تعلقات دربار قسطنطنیہ کے ساتھ پہلی مرتبہ کشیدہ ہوئے اور جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے جنگ و پیکار تک نوبت پہنچی، اس موقع پر سلطنت عثمانیہ کو مملوکیوں سے نیچا دیکھنا اور نقصان اٹھانا پڑا تھا جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔ اب سلطان سلیم کے تخت نشین ہونے کے بعد مثل دوسری سلطنتوں کے مملوکی بھی اس نئے سلطان کی حرکات کو بغور دیکھ رہے تھے، انہوں نے جب اسمٰعیل صفوی کی شکست اور سلیم کی فتوحات کا حال سنا تو اب ان کو یہ فکر ہوئی کہ سلیم اب ہم سے چھیڑ چھاڑ کیے بغیر نہ رہے گا اس لیے کہ دیاربکر وغیرہ صوبے جو سلطنت عثمانیہ میں شامل ہو چکے تھے، انہوں نے مملوکیوں کے مقبوضہ ملک یعنی
|