قرطبہ اور غرناطہ کے مشہور شہر صوبۂ اندلوسیہ یعنی جزیرہ نما کے جنوبی حصہ میں واقع ہیں ۔ اشبیلیہ بھی جنوبی و مغربی علاقہ میں مشہور شہر تھا، اس جزیرہ نما کا سب سے زیادہ زرخیز و آباد اور قیمتی علاقہ جنوبی حصہ یعنی صوبہ اندلوسیہ ہے اور یہی جنوبی حصہ زیادہ عرصہ تک مسلمانوں کے قبضہ میں رہا جیسا کہ آگے بیان ہونے والا ہے۔
اندلس میں اہل فونیشیا، قرطاجنہ، رومی اور گاتھ کی حکومت
فونیشیا کی حکومت:
فینیشیا یا فونیشیا یا کنعان اس ملک کا نام ہے جو ملک شام کا مغربی حصہ کہلاتا ہے اور جو بحر روم کا مشرقی ساحل ہے، سیّدنا موسیٰ علیہ السلام سے کئی سو سال پیشتر اس حصۂ ملک میں ایک بڑی زبردست اور تجارت پیشہ قوم رہتی تھی جو آج کل مورخین میں اہل فونیشیا کہلاتی ہے، اہل فونیشیا کے جہازات تمام بحرروم میں تجارتی مال ادھر سے ادھر لے جانے میں مصروف تھے، مال و دولت کی فراوانی نے ان کو ایک خاص تہذیب اور خاص تمدن کا بانی بنایا، فلسطین پر قبضہ کر کے انہوں نے بحر قلزم کے راستے ہندوستان و چین تک اور ادھر آبنائے جبل الطارق سے گزر کر انگلستان و بحر شمالی تک اپنی تجارت کا سلسلہ قائم کیا، بحر روم کی شمالی اور جنوبی بندرگاہوں پر انہی کا قبضہ تھا اور ان کی بحری طاقت دنیا میں سب سے بڑی بحری طاقت تھی، انہوں نے جابجا اپنی نو آبادیاں قائم کر لی تھیں انہیں نو آبادیوں میں شمالی افریقہ (تیونس) کا شہر قرطاجنہ ان کا آباد کیا ہوا تھا جو بعد میں ایک مستقل حکومت و سلطنت کا پائے تخت بنا۔
انہی نو آبادیوں میں ملک اندلس کے ساحلی مقامات پر ان کے آباد کیے ہوئے شہر و قصبہ اور بندرگاہ تھے، رفتہ رفتہ ملک اندلس ان کی سلطنت کا ایک صوبہ بن گیا اور اہل فینشیا یہاں حکومت کرنے لگے، جب اہل فینشیا کی سلطنت و حکومت میں زوال پیدا ہوا تو انہی کے بعض افراد نے قرطاجنہ یعنی تیونس میں ایک زبردست سلطنت کی بنیاد قائم کی اور اندلس بھی سلطنت قرطاجنہ کا ایک صوبہ بن گیا، اہل قرطاجنہ نے سیکڑوں برس کوس انا ولا غیری بجایا، یہ لوگ آتش پرست اور ستارہ پرست تھے، ان کی تہذیب اپنے زمانے میں لانظیر سمجھی جاتی تھی، اہل فینشیا کے مقابلے میں اندلس پر اہل قرطاجنہ کا زیادہ اثر پڑا، اس لیے کہ ساحل شام کی نسبت قرطاجنہ اندلس سے زیادہ قریب تھا۔
اندلس میں رومی حکومت کا قیام :
جب اٹلی کی شہر روم میں رومۃ الکبریٰ کی سلطنت قائم ہوئی تو اہل قرطاجنہ اور اہل روم کی معرکہ
|