زبردست فوجیں عیسائی ممالک کی طرف بھیجیں ۔ ان اسلامی فوجوں نے پہنچ کر ہر جگہ عیسائیوں کو شکست فاش دی اور ان کو جنگ خندق کی فتح عظیم سے فائدہ اٹھانے کا مطلق موقع نہ دیا۔ یہاں تک کہ حدود فرانس تک فاتحانہ پہنچ کر اور بہت کچھ مال غنیمت لے کرو واپس آئیں ۔
خلافت عباسیہ میں انقلاب:
اسی سال یعنی ۳۲۷ھ میں سلطان کے پاس عباسی خلیفہ مقتدر کے مقتول ہونے خلافت عباسی کے برائے نام باقی رہنے اور عبیدیین کے دعویٰ خلافت کی خبریں پہنچیں ، سلطان عبدالرحمن ثالث نے یہ دیکھ کر کہ اب خاندان عباسیہ کا کوئی خطرہ باقی نہیں رہا اور عبیدیین سے اندلس کے مسلمانوں کو بوجہ ان کے شیعہ ہونے کے کوئی ہمدردی نہیں ہے مناسب سمجھا کہ امیرالمومنین اور خلیفۃ المسلمین کا خطاب اختیار کر لے۔ چنانچہ اس نے اپنے امیر المومنین ہونے کا اعلان کیا اور ناصرلدین اللہ کا لقب اختیار کیا۔ اس خطاب اور لقب کی کسی نے مخالفت نہیں کی اور حقیقت بھی یہ تھی کہ اس زمانے میں وہی عالم اسلام کے اندر سب سے زیادہ خلیفۃ المسلمین کہلائے جانے کا مستحق بھی تھا اس کے بعد امیر المومنین عبدالرحمن نے قرطبہ کی رونق و شان بڑھانے اور خوب صورت عمارات بنانے کی طرف توجہ مبذول کی اور آٹھ دس سال تک برابر ہر سال شمالی عیسائی ریاستوں کی سرکوبی کے لیے افواج بھیجتا رہا۔ عیسائیوں کو اسقدر مجبور و مغلوب کیا گیا کہ ہر ایک نے اظہار عجزو انکسار ہی کو اپنی حفاظت کا ذریعہ بنایا اور شمالی عیسائیوں کی سرکشی و بغاوت کا خطرہ بالکل جاتا رہا۔
اندلس کے واقعات جو اب تک بیان ہو چکے ہیں ان کے مطالعہ سے خلیفہ عبدالرحمن کی یہ غلطی بالکل صاف نظر آتی ہے کہ اس نے باوجود اس کے کہ ان شمالی عیسائی ریاستوں کے حالات دیکھے سنے تھے، مگر پھر بھی موقع پا کر ان کے وجود کو مکمل طور پر متاصل کرنا نہ چاہا اور ان کو اپنا مغلوب دیکھ کر باقی رہنے دیا۔ خلیفہ عبدالرحمن ۳۳۰ھ کے بعد بڑی آسانی سے ان تمام عیسائی ریاستوں کو جو مسلمانوں کے مفتوحہ ملک میں مسلمانوں کی غفلت کے سبب پیدا ہو گئی تھیں ایک ایک کر کے مٹا سکتا اور اپنے مسلمان عامل مقرر کر سکتا تھا لیکن اس نے بھی جزیرہ نما کے اندر ان عیسائی ریاستوں کے وجود کو باقی رکھا جس کا نتیجہ مسلمانوں کی اولاد کے لیے سخت مضر ثابت ہوا۔ اس زمانے میں غالباً یہ تصور بھی نہ ہو سکتا ہو گا کہ کسی دن مسلمانوں کی اولاد ایسی ضعیف و ناتواں ہو جائے گی کہ یہ عیسائی نواب جو آج فرماں برداری کا اقرار کر رہے ہیں اندلس سے اسلام کا نام و نشان مٹا سکیں گے امیر المومنین بننے کے بعد عبدالرحمن ثالث نے دار الخلافہ قرطبہ سے باہر قدم نہیں رکھا اور جب کبھی ضرورت ہوئے اپنے سرداروں کو فوجیں دے کر
|