علاء بن مغیث اپنی افواج جرار لیے ہوئے مقابلہ پر آ پہنچا، علاء کے قریب پہنچنے پر خود عبدالرحمن کی فوج کے بہت سے آدمی علاء بن مغیث کی فوج میں جا کر شامل ہونے کے لیے ایک حصہ فوج روانہ کر دی اور اس طرح اپنی ہوا خواہی کا یقین دلایا، عبدالرحمن کو مجبوراً قلعہ قرمونہ میں محصور ہونا پڑا۔
عبدالرحمن کا جرائت مندانہ اقدام :
علاء بن مغیث نے قرمونہ کا محاصرہ کر لیا اور اپنی فوج کے دستوں کو لوٹ مار کے لیے ادھر ادھر بھیجنا شروع کر دیا، اندلس کے بربری اور دوسرے لوگ یہ رنگ دیکھ کر لوٹ مار پر جابجا پل پڑے تمام ملک اندلس میں قتل و غارت اور بدامنی کا ہنگامہ برپا ہو گیا۔ امیر عبدالرحمن دو مہینے تک قلعہ قرمونہ میں محصور رہا۔ سامان رسد کے ختم ہو جانے سے لوگ بھوک کے مارے مرنے لگے اور کشودکار کی کوئی صورت باقی نہ رہی، اس حالت یاس و ناامیدی میں امیر عبدالرحمن نے اپنے ہمراہیوں کو مخاطب کر کے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم لوگ بجائے اس کے کہ بھوک کی شدت سے مریں یا زندہ دشمنوں کے ہاتھ میں گرفتار ہوں ، لڑ کر مر جائیں اور ذلت کی زندگی پر عزت کی موت کو ترجیح دیں ، چنانچہ اسی وقت ایک بڑا الاؤ آگ کا روشن کر کے سات سو آدمیوں نے اپنی تلواروں کے میان اس میں ڈال کر جلا دیئے جو اس بات کی علامت تھی کہ دشمن سے لڑتے لڑتے مر جائیں گے یا فتح حاصل کریں گے اس کے بعد قلعہ کا دروازہ کھول کر یکایک دشمن پر جا پڑے، محاصر فوج دو مہینے سے قلعہ کو گھیرے ہوئے پڑی تھی اس کو یہ معلوم تھا کہ محصورین کی تعداد بہت قلیل ہے، اس لیے وہ غافل اور بے فکر تھی، یکایک ان سات سو بھوکے شیروں نے نکل کر اس طرح قتل کا بازار گرم کیا کہ محاصر دشمن اپنی سات ہزار لاشیں قلعہ کے سامنے چھوڑ کر میدان خالی کر گئے، اور ذراسی دیر میں ملک اندلس کی سلطنت جو امیر عبدالرحمن کے قبضے سے نکل چکی تھی پھر اس کے قبضے میں آگئی۔
عجیب قسم کی دل لگی:
اس موقع پر امیر عبدالرحمن نے منصور عباسی کے ساتھ عجیب قسم کی دل لگی کی یعنی علاء بن مغیث اور لشکر عباسی کے تمام بڑے بڑے سرداروں کے سر کاٹ کر ہر ایک کے کان میں سوراخ کر کے ایک پرچہ باندھ دیا جس میں اس سردار کا نام مع عہدہ درج تھا، پھر ان سرداروں کو کئی صندوقوں میں بڑی احتیاط کے ساتھ بند کرا کر حاجیوں کے قافلے کے ساتھ روانہ کر دیا، اس طرح یہ صندوق مکہ معظمہ پہنچے اور وہاں سے ایک حجازی نے ان کو خلیفہ منصور کی خدمت میں پیش کر دیا، خلیفہ منصور نے جب ان صندوقوں کو کھولا تو جس صندوق میں علاء بن مغیث کا سر تھا اسی میں وہ خط بھی تھا جو منصور نے علاء بن مغیث کے نام
|