Maktaba Wahhabi

462 - 868
حالات سے خوب واقف و تجربہ کار تھا لہٰذا اس نے احتیاط سے کام لیا اور اس بات کی کوشش کی کہ مولویوں اور مولوی مزاج لوگوں کو اس کے خلاف لوگوں کو برانگیختہ کرنے کا کوئی موقع نہ ملے۔ بغاوتوں کا استیصال: عبدالرحمن ثانی کی تخت نشینی کے وقت اندلس کا تمام شمالی حصہ جس میں خلیج بسکی کا جنوبی ساحل اور جبل البرتات کا جنوبی دامن شامل تھا۔ عیسائیوں کے قبضہ میں تھا مگر یہ تمام عیسائی روسا سلطنت اسلامیہ کے باج گزار اور دربار قرطبہ کی سیادت کو تسلیم کرتے تھے۔ دربار قرطبہ بھی اندلس کے اس شمالی حصے سے اس کے سوا اور کچھ نہ چاہتا تھا۔ برشلونہ کا علاقہ بھی عیسائیوں کے قبضے میں عرصہ سے پہنچ چکا تھا اور وہاں ریاست ’’گاتھک مارچ‘‘ کے فرماں روا کی طرف سے ایک نائب الریاست مامور تھا۔ اس طرح اندلس کے مشرقی و شمالی ساحل کا بھی ایک حصہ عیسائیوں کے تصرف میں تھا، ریاست ایسٹریاس لیون و جلیقیہ تک وسیع ہو گئی تھی اور اس کا جدید شہر کیسٹل یا قسطلہ دارالریاست یا دارالسلطنت بن چکا تھا۔ مسلمان ان شمالی عیسائی ریاستوں کو مٹانا ہرگز نہ چاہتے تھے مگر ان کو اپنی طاقت سے محض اس لیے مرعوب رکھنا ضروری جانتے تھے کہ وہ فرانس کے عیسائیوں یعنی سلطنت فرانس وغیرہ سے ساز باز کر کے اندلس کے ملک پر کوئی چڑھائی نہ ہونے دیں ۔ اسی غرض کے لیے وہ خلیج لبسکی کو عبور کر کے اور کبھی جبل البرتات کو طے کر کے فرانس کے ملک پر حملے کرتے تھے کہ شمالی ملکوں کے عیسائی اندلس کی جانب اقدام نہ کر سکیں ۔ اندلس کی شمالی سرحد پر شہر البیرۃ تھا جہاں دربار قرطبہ سے سرحدی عامل مقرر کیا جاتا تھا۔ البیرۃ کے اس سرحدی عامل نے وہاں کی رعایا پر ظلم کیا اور عیسائیوں سے ساز باز رکھا اس کی پاداش میں سلطان حکم نے اس کو قتل کرا کر اس کا تمام مال و اسباب ضبط کرا لیا تھا۔ اس کے چند ہی روز بعد سلطان حکم کا انتقال ہو گیا تھا۔ جدید سلطان کی تخت نشینی پر سرحدی عیسائیوں نے موقع پایا اور البیرۃ کی فوج اور رعایا کو بہکا کر قرطبہ میں بھیجا کہ وہ اس مال کا مطالبہ کریں جو مقتول عامل کا سرکاری خزانہ کے حق میں ضبط ہوا ہے، کیونکہ وہ مال درحقیقت رعایا کا مال ہے جو عامل نے زبردستی چھین لیا تھا۔ یہ احتجاجی لوگ قرطبہ میں ۲۰۷ھ میں پہنچ کر قصر سلطانی کے دروازہ پر گستاخانہ حرکات کے عامل ہوئے۔ ان کی تادیب کے لیے شاہی محافظ دستے کو حکم ہوا۔ ان لوگوں نے مقابلہ کیا۔ بہت سے مارے گئے بہت سے بھاگ گئے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سرحد پر عیسائیوں کو اور بھی زیادہ شورش پھیلانے کا موقع مل گیا۔ اسی سال یعنی ۲۰۷ھ میں علاقہ تدمیر کے اندر عربوں کے قبائل مضریہ اور قبائل یمانیہ میں جنگ چھڑی۔ اس خانہ جنگی کو فرو کرنے کے لیے شاہی فوج بھیجی گئی اور آتش فساد فرو ہوئی مگر جب شاہی فوج
Flag Counter