تیسرا باب:
معتضد باللہ
معتضد باللہ بن موفق باللہ بن متوکل علی اللہ بن معتصم باللہ بن ہارون الرشید کا اصل نام احمد اور کنیت ابو العباس تھی، ربیع الاول ۲۴۳ھ میں صواب نامی ام ولد کے پیٹ سے پیدا ہوا اور اپنے چچا معتمد باللہ کے بعد ماہ رجب ۲۷۹ھ میں تخت نشین ہوا، خوب صورت بہادر اور عقل مند شخص تھا، سخت گیری اور خون ریزی سے بھی اگر ضرورت ہوتی تھی تو در گذر نہیں کرتا تھا، باہیبت اور معاملہ فہم تھا، منجموں اور افسانہ گو لوگوں کا دشمن تھا، مامون کے زمانہ سے فلسفہ کا بہت چرچا ہو گیا تھا، معتضد نے فلسفہ اور مناظرہ کی کتابوں کی اشاعت کو روک دیا، تاکہ مذہبی فتنوں اور لڑائی جھگڑوں کا سد باب ہو، رعایا کے خراج میں اس نے کمی کر دی تھی، عدل کا شائق تھا، رعایا پر سے ظلم وستم کو دور کرنے کی کوشش کرتا تھا۔
مکہ میں دار الندوہ کی عمارت ابھی تک موجود تھی، معتضد نے اس کو گرا کر مسجد بیت الحرام کے پاس ایک مسجد بنا دی، مجوسی النسل لوگوں کی کثرت نے بغداد میں نو روز کے دن عید منانے اور آگ جلانے کی رسم بھی جاری کر دی تھی۔ معتضد نے اس مجوسی رسم کو حکماً بند کر دیا۔ خماریہ بن احمد طولون حاکم مصر کی لڑکی سے اس نے عقد کیا، اس نے دفتر میراث قائم کیا اور ذوی الارحام کو بھی میراث میں سے حصہ دلانے کا التزام کیا، اس سے لوگوں نے اس کو بہت دعائیں دیں اور اس کی قبولیت رعایا میں بڑھ گئی۔
معتضد نے ایک مرتبہ قاضی ابو حازم کے پاس کہلا بھیجا کہ آپ نے فلاں شخص سے لوگوں کا مال دلوایا ہے، میرا بھی کچھ مال اس کے پاس ہے مجھ کو بھی دلواؤ، قاضی نے جواباً کہلا بھجوایا کہ آپ گواہ پیش کریں تو آپ کو بھی ڈگری دی جائے، معتضد کے گواہوں نے قاضی ابو حازم کے سامنے پیش ہونے سے انکار کیا کہ کہیں قاضی ہم کو ناقابل شہادت نہ ٹھہرائے، اس لیے معتضد کو اس کا مال نہ ملا۔
معتضد نے خلافت عباسیہ کا بہت نازک اور خراب دور پایا تھا مگر اس نے بہت کوشش کی کہ خلافت عباسیہ کی حالت سقیم درست ہو جائے، چنانچہ اس کی وجہ سے کچھ کچھ ترقی کے آثار نمایاں بھی ہوئے مگر اس کے جانشینوں میں یہ قابلیت نہ تھی کہ رفتار ترقی کو قائم رکھ سکتے۔
معتضد کے تخت نشین ہونے کے چند روز بعد ہی نصر بن احمد سامانی فوت ہو گیا تھا، اس کی جگہ اس کا بھائی اسماعیل بن احمد سامانی ماوراء النہر کا حکمران ہوا، موصل کے علاقے میں خوارج کے دوگروہ آپس میں
|