قرطبہ واپس آیا۔ جہاں اس کا بڑا شاندار استقبال کیا گیا۔
ولی عہدی:
۳۶۵ھ میں اس خلیفہ نے اپنے بیٹے ہشام کو ولی عہد خلافت بنا کر امراء و وزراء اور اراکین سلطنت سے بیعت لی اور تمام ممالک محروسہ میں عاملوں سے بیعت ولی عہدی وکالتاً لی گئی۔
وفات:
۲ ماہ صفر ۳۶۶ھ کو سولہ ۱۶ سال حکومت کرنے کے بعد ۶۴ سال کی عمر میں خلیفہ ثانی نے بعارضۂ فالج قرطبہ میں وفات پائی۔ اس کی وفات کے وقت اس کے بیٹے ہشام کی عمر گیارہ سال کے قریب تھی۔ خلیفہ حکم ہی نے ولی عہدی کے وقت اس کا وزیر محمد ابن ابی عامر کو تجویز کر دیا تھا۔ اگلے روز ہشام تخت نشین ہوا۔
خلیفہ حکم ثانی کے دور پر تبصرہ:
خلیفہ حکم ثانی اندلس کے نہایت نامور اور مشہور علماء میں شمار ہوتا ہے۔ اگر اس خلیفہ کے زمانے میں لڑائیوں اور چڑھائیوں کا زیادہ موقع ہوتا تو وہ یقینا اعلیٰ درجہ کا سپہ سالار ثابت ہوتا۔ مگر اس کے عہد حکومت میں بہت ہی کم مگر بہت اہم ہنگامے جنگ وجدل کے برپا ہوئے۔ جن میں عموماً لشکر اندلس کو کامیابی اور فتح مندی حاصل ہوئی۔
زیادہ وقت اس خلیفہ کا علمی مشاغل میں صرف ہوا۔ اس خلیفہ کا وزیر جعفر بھی ہارون الرشید کے وزیر جعفر برمکی سے کم لائق نہ تھا۔ خلیفہ نے انتظام ملکی کے متعلق اس کے اختیارات کو وسیع کر کے اپنے لیے علمی مشاغل کا وقت بہت کچھ نکال لیا تھا۔ اس خلیفہ کے زمانے میں مذہبی بے جا تعصب بالکل نہ رہا تھا۔ ہر قوم و مذہب کے آدمی کو اندلس میں کامل آزادی حاصل تھی۔ تنگ دلی اور پست خیالی کا نام و نشان دربار قرطبہ میں نہیں پایا جاتا تھا۔ عدل و انصاف کے قائم رکھنے کا اس خلیفہ کو بہت زیادہ خیال تھا۔ تمام رعایا خلیفہ سے خوش اور ہر طبقہ میں اس کی محبت و عزت بے شائبہ ریا موجود تھی۔
خلیفہ احکام قرآنی کا سختی سے پابند تھا اور مسلمانوں سے اس کی پابندی کراتا تھا۔ اس سے پہلے اندلس کے فوجی لوگوں میں شراب خوری کا عیب بھی پایا جانے لگا تھا۔ اس خلیفہ نے شراب کا بنانا، بیچنا اور استعمال کرنا قطعاً ممنوع اور جرم عظیم قرار دے کر اس پلیدی سے اپنے ملک کو پاک کیا۔ خلیفہ کی طرف سے ایک بڑی رقم روزانہ خیرات کی جاتی تھی۔ جابجا ملک کے بڑے بڑے شہروں میں کالج اور دارالعلوم قائم کیے۔ چھوٹے چھوٹے قصبوں اور دیہات میں بھی مدرسے قائم تھے۔ طلبہ کے اکثر مصارف شاہی
|