Maktaba Wahhabi

554 - 868
تیرھواں باب: اندلس پر موحدین کی حکومت محمد بن عبداللہ تومرت: محمد بن عبداللہ۔ تومرت جو ابن تومرت کے نام سے مشہور ہے ملک مراکش کے علاقہ سوس کے ایک گاؤں میں پیدا ہوا تھا۔ بربروں کے قبیلہ مسمودہ سے تھا۔ مگر بعد میں اس نے دعویٰ کیا کہ میں سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی اولاد سے ہوں اور اپنا سلسلہ نسب حسن بن علی بن ابی طالب تک پہنچایا۔ ۵۰۱ھ میں ابن تو مرت اپنے وطن علاقہ سوس سے روانہ ہو کر ممالک مشرقیہ کی طرف گیا اور حصول علم میں چودہ ۱۴ سال تک وطن سے باہر رہا۔ ابوبکر شاشی سے بغداد میں اصول فقہ اور دیگر علوم دینیہ کی تحصیل کی۔ مبارک بن عبدالجبار اور دوسرے بزرگوں سے حدیث پڑھی۔ امام غزالی کی پیش گوئی: سیّدنا امام غزالی رحمہ اللہ کی خدمت ہیں بھی حاضری کا شرف حاصل کیا۔ ایک روز جب کہ امام غزالی کی خدمت میں ابن تومرت بھی موجود تھا کسی نے عرض کیا کہ آپ کی کتابوں کو امیر المسلمین علی بن یوسف بن تاشفین فرماں روائے مراکش و اندلس نے جلا ڈالنے کا حکم دیا ہے، سیّدنا امام ممدوح نے فرمایا کہ اس کا ملک برباد ہو جائے گا اور میرا خیال ہے کہ اس کے ملک و سلطنت کی بربادی اسی شخص کے ذریعہ عمل میں آ جائے گی جو اس وقت ہماری مجلس میں موجود ہے۔ امام موصوف نے یہ الفاظ فرماتے ہوئے ابن تومرت کی طرف اشارہ کیا۔ اسی روز سے ابن تومرت کے دل میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ مرابطین کی سلطنت کو مٹایا جائے جو تقلید جامد کی حامی اور روشن خیالی کی دشمن ہے۔ چنانچہ ابن تومرت اپنے وطن کی طرف متوجہ ہوا، راستے میں اسکندریہ میں چند روز قیام کیا اور وہاں امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے باز نہ رہا والیٔ اسکندریہ نے اپنے شہر سے نکلوا دیا۔ غرض ابن تومرت کی یہ صفت خاص طور پر قابل تذکرہ ہے کہ وہ لوگوں کو نصیحت کرنے، اور برائیوں سے روکنے میں مطلق باک نہ کرتا تھا۔ عابد زاہد اور نہایت باخدا شخص تھا۔ ابن تومرت کے مذہبی عقیدے کی نسبت کہا جاسکتا ہے کہ اشاعرہ متکلمین اور امامیہ کا مجموعہ تھا۔ ابن تومرت کی نسبت ابن خلکان لکھتا ہے کہ وہ کامل متقی و پرہیز گار شخص تھا۔ نہایت زاہدانہ زندگی بسر کرتا۔ اس کی پوشاک و غذا نہایت سادہ ہوتی تھی۔ وہ ہمیشہ خوش نظر آتا اور ریاضت و نفس کشی کی جانب مائل رہتا تھا۔ ابن تومرت
Flag Counter