ساتواں باب:امیران اندلس
عبدالعزیز بن موسیٰ :
موسیٰ بن نصیر کے اندلس سے رخصت ہونے کے بعد اندلس کے اکثر ان شہروں نے جو اطاعت کا اظہار کر چکے تھے بغاوت کی، ان بغاوتوں کے فرو کرنے اور دوبارہ عیسائیوں کو مطیع و منقاد بنانے میں امیر عبدالعزیز نے پوری مستعدی اور ہوشیاری کا ثبوت دیا، مسلمانوں کی فوج اتنے بڑے ملک میں بہت ہی تھوڑی تھی، اسی لیے صوبوں اور شہروں کی حکومت پر جن افسروں کو مقرر کیا گیا تھا، اس کے پاس امن و امان قائم رکھنے کے لیے حسب ضرورت فوج نہیں رکھی جا سکتی تھی، اسی لیے عیسائیوں کو جرائت ہو گئی تھی کہ وہ بغاوت پر آمادہ ہو جائیں مگر ان کو بہت جلد معلوم ہو گیا کہ مسلمانوں کو اندلس سے نکالنا آسان کام نہیں ہے ساتھ ہی ان کو اس بات کا بھی احساس تھا کہ نئی اسلامی حکومت پرانی گاتھ حکومت سے بدرجہا بہتر اور اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی ایک رحمت ہے۔
مذہبی آزادی :
مسلمانوں نے سب سے پہلے مذہبی آزادی کا اعلان کیا تھا اور عیسائیوں کو اپنے معاملات مذہبی و دنیوی میں ہر قسم کی آزادی عطا کر دی تھی بشرطیکہ وہ اسلام اور حکومت اسلامیہ سے متعرض نہ ہوں ، اب امیر عبدالعزیز نے اسی سلسلہ میں اعلان کیا کہ جو غلام اسلام قبول کر لے گا وہ مسلمان ہوتے ہی اپنے غیر مسلم آقا کی غلامی و قید سے آزاد سمجھا جائے گا، عیسائیوں کے پاس غلاموں کی بڑی تعداد تھی اور وہ ان غلاموں سے اس طرح خدمات لیتے تھے جیسے چوپایوں سے خدمات لی جاتی ہیں ، امیر عبدالعزیز کے اس اعلان کا یہ نتیجہ ہوا کہ ہزارہا غلاموں نے آزادی حاصل کرنی شروع کی اور انسانی حریت سے بہرہ اندوز ہونے لگے، اس طرح نوع انسان کی ایک بہت بڑی خدمت انجام دی گئی اور ساتھ ہی قلت تعداد کی شکایت بھی مسلمانوں کو نہ رہی۔
امیر عبدالعزیز نے شاہ لرزیق کی بیوہ ایجیلونا سے خود شادی کی اور اس کو اپنے عیسائی مذہب پر قائم رہنے دیا، امیر کی تقلید میں دوسرے مسلمانوں نے بھی عیسائی عورتوں سے شادیاں کرنی شروع کر دیں ، شہروں کے ان مکانات میں جو لڑائیوں میں عیسائیوں کے مفرور و مقتول ہونے سے خالی اور ویران ہو
|