تیار ہو گیا اور اس پر توپیں چڑھا دی گئیں جیسا کہ مقابل کے ایشیائی قلعہ پر بھی توپیں موجود تھیں ۔ اس طرح آبنائے باسفورس کا دروازہ سلطان محمد خان ثانی نے بند کر دیا اور بحر اسود کو بحر مار مورہ سے جدا کر کے قیصر کے جہازوں کو بحراسود میں آنے سے روک دیا۔ لیکن اس سے قسطنطین کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا تھا کیونکہ اس کو درہ دانیال کے ذریعہ یورپی ممالک یعنی اٹلی واسپین وغیرہ سے امداد پہنچ رہی تھی۔ سلطان محمد ثانی کے پاس کل تین سو کشتیاں بتائی جاتی ہیں جو قریباً سب بہت چھوٹی چھوٹی تھیں اور ان میں سے ایک بھی ایسی بڑی نہ تھی جو قسطنطین کے چودہ بڑے بڑے جنگی جہازوں میں سے کسی چھوٹے سے چھوٹے جہاز کے برابر ہو۔
فتح قسطنطنیہ :
۶ اپریل ۱۴۵۳ء مطابق ۲۶ ربیع الاول ۸۵۷ھ کو سلطان محمد خان ثانی اپنی فوجیں لیے ہوئے خشکی کی جانب سے قسطنطنیہ کی فصیل کے سامنے نمودار ہوا ادھر عثمانی جہازوں نے بحرمارمورا میں سمٹ کر بندرگاہ قسطنطنیہ یعنی گولڈن ہارن کے سامنے بحری محاصرہ شروع کیا۔ سلطانی بیڑہ کاامیر البحر بلوط اغلن نامی ایک سردار تھا۔ سلطان نے فصیل شہر کا محاصرہ کر کے جابجا مناسب دستوں کو مامور کیا اور بیل داروں کو حکم دیا کہ ساباط اور سرنگون کے بنانے میں مصروف ہوں اور تیز رفتاری کے ساتھ ساباط اور دمدموں کو فصیل شہر کے نزدیک لے جائیں ۔ مناسب موقعوں پر دمدمے تیار کر کے تیر اندازوں کو مامور کیا گیا کہ جو شخص فصیل شہر سے سر ابھارے اس کو تیر کا نشانہ بنائیں ۔ اس محاصرے کے جاری کرنے میں سلطان محمد خان نے اپنی حیرت انگیز قابلیت کا اظہار کیا۔ محاصرین نے جلد جلد محاصرہ کے حلقہ کو تنگ اور فصیل شہر کے متصل پہنچنے کی کوشش کی۔ منجنیقوں اور توپوں کو مناسب موقعوں پر نصب کر کے فصیل شہر پر جابجا گولوں اور پتھروں کی بارش کی گئی۔
ادھر محصورین بھی مدافت کے لیے پورے طور پر تیار اور مستعد تھے۔ جنیوا کے سپہ سالار جان اغطیاس اور یونانی سپہ سالار ڈیوک نوطارس نے بڑی ہمت اور قابلیت کے ساتھ مدافعت کے کاموں کو انجام دیا پوپ نکلسن پنجم کے نائب کارڈنل نے اپنی شجاعت و تجربہ کاری کے نمایاں ثبوت پیش کرنے شروع کیے۔ ان تمام سپہ سالاروں فوجوں کی مجموعی طور پر نگرانی قیصر قسطنطین نے اپنے ہاتھ میں لی۔ وہ صبح سے شام تک اور رات کے وقت بھی پشت زین سے بہت کم جدا ہوتا تھا ہر ایک مورچہ اور ہر ایک مقام پر خود پہنچتا سپاہیوں کے دل بڑھاتا اور سپہ سالاروں کے کاموں کا معائنہ کر کے ان کو داد دیتا تھا۔ محاصرہ کے شروع ہوتے ہی باشندگان شہر اور عیسائی فوجوں میں انتہا درجہ کا جوش پیدا ہو گیا تھا۔ لڑائی کی ترغیب
|