خلیفۂ مستضی عباسی کے نام کا خطبہ پڑھواؤ۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ بادشاہ عاضد بیمار اور مرض الموت میں گرفتار تھا۔ چنانچہ اس حکم کی تعمیل محرم ۵۶۷ھ کے پہلے جمعہ کو جامع مسجد قاہرہ کے ممبر پر بغداد کے عباسی خلیفہ کا خطبہ پڑھا گیا اور کسی شخص نے اس کو ناپسند نہ کیا۔ اگلے جمعہ کو صلاح الدین کے گشتی فرمان کے موافق تمام ملک مصر کی مسجدوں میں خلیفہ بغداد کا خطبہ پڑھا گیا۔
وفات:
اسی عرصہ میں ۱۰ محرم ۵۶۷ھ کو بادشاہ عاضد عبیدی نے وفات پائی۔ صلاح الدین نے دربار تعزیت منعقد کیا اور قصر سلطانی کے تمام مال و اسباب کا جائزہ لیا۔ اس کے ساتھ ہی دولت عبیدیین کا خاتمہ ہو گیا اور ملک مصر پھر خلافت عباسیہ بغداد کی حدود میں داخل ہوا۔ صلاح الدین ایوب کے خلیفہ بغداد کی طرف سے حکومت مصر کی سند خطاب سلطانی اور خلعت و علم آ گیا اور دولت عبیدیین کے بعد مصر میں دولت ایوبیہ کی ابتداء ہوئی۔
دولت عبیدیہ پر تبصرہ:
دولت عبیدیین دو سو ستر سال تک قائم رہی۔ ابتداء عبیدیوں کی حکومت افریقہ یعنی ملک مغرب میں قائم ہوئی پھر مصر پر قابض ہو کر انہوں نے قاہرہ کو دارالسلطنت بنایا۔ مراکش کی سلطنت ادریسیہ کو بھی لوگ عام طور پر علویوں اور شیعوں کی سلطنت سمجھتے ہیں ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ادریسیہ سلطنت نسباً بربری اور اس لیے نیم شیعہ یا برائے نام شیعہ سلطنت تھی۔ ادریسیوں کے اعمال و عبادات و عقائد میں کوئی ایسی بات نہ تھی جس کو سنیوں کے مقابلے میں مابہ الامتیاز قرار دیا جا سکے۔ نہ ادریسیوں کو سنیوں سے کوئی عداوت و نفرت تھی، نہ ان کے عقائد و عبادات میں کوئی فرق تھا۔ بجز اس کے کہ اس سلطنت کی ابتداء ادریس اول سے ہوئی تھی جس نے محبت اہل بیت کے مشہور ہتھیار سے کام لے کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔ اس کے بعد ادریسیوں میں کوئی شیعی خصوصیت نہیں دیکھی گئی۔ ہاں عبیدیین کی حکومت ضرور شیعی حکومت تھی، لیکن نسباً وہ علوی حکومت ہرگز نہ تھی۔ عبیداللہ کا دادا تاریخ الخلفاء سیوطی کی روایت کے موافق مجوسی اور ذات کا لوہار و تیر گر تھا۔ عبیداللہ مہدی نے ملک مغرب میں جا کر علوی فاطمی ہونے کا دعویٰ کیا مگر علمائے نسب نے اس کے دعوے کو تسلیم نہیں کیا۔ ایک مرتبہ عزیز عبیدی نے اندلس کے اموی خلیفہ کے نام ایک خط بھیجا جس میں ہجو و دشنام درج تھیں ۔ خلیفہ اموی نے اس کے جواب میں عزیز عبیدی کو لکھا کہ تجھ کو چونکہ ہمارا نسب معلوم تھا اس لیے تو نے ہجو کی۔ اگر ہم کو تیرا نسب معلوم ہوتا تو ہم بھی تیری طرح تیرے بزرگوں کی نسبت ہجو کرتے۔ عزیز کو یہ جواب بہت ہی گراں گذرا مگر کوئی جواب نہ
|