فہرست میں بیان ہوا، لیکن اکثر ایسی ہیں کہ ان کی تفصیلی تاریخ بیان ہونی چائیے اگرچہ وہ تفصیل بھی خلاصہ اور نہایت مختصر مگر مکمل خلاصہ ہو گا، انہی حکومتوں کے حالات کا مجموعہ تاریخ اسلام کی تیسری جلد ہو گی۔ اس فصل میں ممالک مشرقیہ کی بعض سلطنتوں کی طرف ابھی اور اشارہ کرنا باقی ہے۔ مثلاً:
دولت اسماعیلیہ حشاشین :
سیّدنا جعفر صادق کے بیٹے موسیٰ کاظم کو اثنا عشری شیعہ امام موصوف کا جانشین اور امام مانتے ہیں ، لیکن موسیٰ کاظم کے ایک بھائی اسمٰعیل تھے، جو لوگ بجائے موسیٰ کاظم کے ان کے بھائی اسمٰعیل کو امام مانتے ہیں وہ شیعہ اسمٰعیلیہ کہلاتے ہیں ، دولت عبیدیین اسماعیلی شیعوں کی سب سے بڑی سلطنت تھی، اسماعیلیوں نے اپنے حصول مقصد کے لیے ہمیشہ پوشیدہ اور خفیہ کاروائیوں اور نہاں درنہاں سازشوں سے کام لیا۔ سلطنت عبیدیہ نے اپنے عقائد اور خیالات کی اشاعت کے لیے شروع ہی سے ایک خفیہ محکمہ قائم کر دیا تھا جس کے ذریعے داعیوں کو اپنی مملکت میں ہی نہیں بلکہ دوسرے ملکوں میں بھی بھیجا جاتا تھا، یہ داعی و اعظوں ، درویشوں اور تاجروں وغیرہ کی شکل میں تمام اسلامی ممالک کے اندر پھیلے ہوتے تھے اور لوگوں کو اسماعیلی عقائد کی تعلیم و ترغیب دیتے تھے، ان کے کفریہ عقائد نہایت خطرناک تھے، قرآن شریف کو یہ لوگ قابل عمل نہیں جانتے تھے، اسمٰعیل بن جعفر صادق کو پیغمبر مانتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم رتبہ خیال کرتے اور محمد مکتوم بن اسمٰعیل بن جعفر صادق کو بھی نبی یقین کرتے تھے، ان کے نزدیک اماموں کی تعداد سات تھی، بانی دولت عبیدیہ کو ساتواں امام قرار دیتے اور عبیدیہ سلاطین کی فرماں برداری و اطاعت کو ذریعۂ نجات ثابت کرتے تھے وغیرہ، ان داعیوں کی کوششوں نے سلطنت عبیدیہ کو بہت فائدہ پہنچایا اور اس کی قبولیت کو بڑھایا تھا۔
حسن بن صباح ایک شخص رے کا باشندہ تھا، اس کے نسب میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ وہ عربی النسل تھا، اس کے آباء و اجداد یمن سے آئے تھے، بعض کا قول ہے کہ وہ مجوسی النسل تھا، بہر حال حسن بن صباح کے باپ اور اہل خاندان کا عقیدہ شیعی تھا، حسن بن صباح نے نیشا پور میں تعلیم پائی تھی، وہ عمر خیام اور نظام الملک طوسی وزیراعظم الپ ارسلان و ملک شاہ کا ہم سبق رہ چکا تھا، نہایت ذہین اور خود دار شخص تھا۔
مستنصر عبیدی کے زمانہ میں حسن بن صباح مصر پہنچا، وہاں اس کی بڑی عزت و تکریم ہوئی، سال بھر سے زیادہ عرصہ تک وہ مصر میں شاہی مہمان اور مستنصر کے مصاحب کی حیثیت سے رہا۔ وہاں اس نے عقائد اسمٰعیلیہ سے پوری واقفیت حاصل کر کے مستنصر کے ہاتھ پر بیعت کی اور دولت عبیدیہ کے اعلیٰ
|