خارجیوں اور علویوں نے خروج شروع کر دیے۔ مساور بن عبداللہ بن مساور بجلی خارجی نے ولایت موصل پر قبضہ کر کے اپنی خود مختاری کا اعلان کیا، اور جو سردار خلیفہ کی طرف سے اس کے مقابلہ کو گیا شکست دے کر بھگا دیا۔
۲۵۳ھ میں ترکوں نے وصیف و بغا اور سیما طویل اپنے سپہ سالاروں سے کہا کہ ہم کو چار چار مہینے کی پیشگی تنخواہیں دلوا دو، انہوں نے کہا کہ خزانہ خالی پڑا ہے تم کو تنخواہیں کہاں سے دی جائیں ؟ ترکوں نے شورش برپا کی، ان سرداروں نے خلیفہ معتز سے عرض کیا، معتز خود مجبور تھا کیا کر سکتا تھا، ترکوں نے وصیف کو پکڑ کر قتل دیا۔
چند روز کے بعد بابکیال اور بغا صیغر میں رقابت پیدا ہو گئی، خلیفہ معتز بابکیال کے حال پر زیادہ مہربان رہنے لگا، بغا نے خلیفہ کے قتل کرنے کا ارادہ کیا، اس ارادہ کی اطلاع معتز کو ہو گئی اور بابکیال کے آدمیوں نے بغا صغیر کو قتل کر دیا۔
محمد بن عبداللہ بن طاہر کی وفات:
محمد بن عبداللہ بن طاہر گورنر خراسان نے ۲۵۳ھ میں بغداد کے اندر وفات پائی، محمد بن عبداللہ نے مرنے سے پیشتر اپنی قائم مقامی اور گورنری خراسان کے لیے اپنے بیٹے عبیداللہ کی نسبت وصیت کی تھی، مگر عبیداللہ کے دوسرے بھائی طاہر بن محمد بن عبداللہ بن طاہر نے بھائی کی مخالفت کی۔ محمد بن عبداللہ کی نماز جنازہ پڑھانے پر ہی آپس میں لڑ پڑے، آخر وصیت کے موافق عبیداللہ ہی باپ کا قائم مقام تسلیم کیا گیا، لیکن خلیفہ معتز نے پھر سلیمان بن عبداللہ بن طاہر کو محمد بن عبداللہ بن طاہر کا قائم مقام بنایا اور اس نے بغداد میں قیام کر کے مہمات متعلقہ کو انجام دینا شروع کیا۔
احمد بن طولون:
ترکی سرداروں میں بابکیال نامی سردار بھی بغا، وصیف اور سیما طویل کی طرح ایک سربر آوردہ اور نامی سردار تھا، اسی سال یعنی ۲۵۳ھ میں خلیفہ معتز باللہ نے بابکیال کو مصر کی سند گورنری عطا کی، بابکیال نے اپنی طرف سے احمد بن طولون کو بطور نائب حکومت مصر پر مقرر کر کے بھیجا۔
طولون ایک ترک تھا جو لڑکپن میں فرغانہ کی لڑائی میں گرفتار ہو کر آیا تھا، اس نے خاندان خلافت میں پرورش پائی تھی اور غلامان شاہی میں شامل تھا، اس کے بیٹے احمد نے بھی دارالخلافہ میں پرورش پا کر امور سلطنت سے واقفیت حاصل کی تھی، بابکیال کو جب مصر کی سند گورنری ملی تو اس کو یہ فکر ہوئی کہ اپنی طرف سے کس کو مصر کی حکومت پر مامور کر کے بھیجوں ، اس کے مشیروں نے احمد بن طولون کا نام لیا،
|