Maktaba Wahhabi

148 - 868
ابتدائی تاریخوں میں بغداد کے اندر ایک ایسا ہنگامہ وقوع پذیر ہوا جس سے اس کی حکومت و خلافت معرض خطر میں پڑ گئی اور آخر ختم ہو گئی۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے حمید بن عبدالحمید نے کوفہ پر قبضہ حاصل کرنے کے بعد ابراہیم بن مہدی سے لڑنے کے لیے بغداد کا قصد کیا۔ ابراہیم بن مہدی کا سپہ سالار عیسیٰ بن محمد بن ابی خالد تھا۔ حمید نے خفیہ پیامات کے ذریعے عیسیٰ بن محمد بن ابی خالد کو اپنی طرف متوجہ کر کے سازش کر لی۔ عیسیٰ بن محمد بن ابی خالد نے حمید کی مدافعت و مقابلے میں پہلو تہی اختیار کی، اس سازش کا حال عیسیٰ کے بھائی ہارون بن محمد کو معلوم ہوا، اس نے ابراہیم بن مہدی کو اس کی اطلاع کر دی۔ ابراہیم بن مہدی خلیفہ نے عیسیٰ کو بلا کر دربار میں ذلیل کیا اور قید کر دیا۔ عیسیٰ کے قید ہونے کا حال معلوم ہوا تو لشکر میں بے چینی پیدا ہوئی اور عیسیٰ کے نائب عباس نے ابراہیم بن مہدی کے خلاف اہل لشکر کو اپنے ساتھ ملا کر ابراہیم بن مہدی کے معزول کر دینے کی تجویز کی۔ اہل بغداد میں سے بہت سے آدمی اس تجویز میں شریک ہو گئے اور ابراہیم کے اہلکاروں کو قید کر لیا۔ اس کے بعد عباس نے حمید کو لکھا کہ تم فوراً بغداد چلے آؤ، میں بغداد تمہارے حوالے کر دوں گا۔ چنانچہ حمید مع لشکر بغداد میں پہنچ کر شہر کے ایک حصہ پر قابض ہو گیا، دوسرے حصے پر ابراہیم قابض تھا، شہر میں چند لڑائیاں ہوئیں ۔ آخر مایوس ہو کر ابراہیم بن مہدی روپوش ہو گیا اور تمام شہر پر حمید بن عبدالحمید اور علی بن ہشام وغیرہ سرداران حسن بن سہل نے قبضہ کر لیا۔ اس طرح ۱۷ ماہ ذالحجہ ۲۰۳ھ کو ابراہیم بن مہدی کی خلافت کا خاتمہ ہو گیا۔ فضل بن سہل کا قتل: اوپر مذکور ہو چکا ہے کہ فضل بن سہل جو خبر چاہتا تھا مامون کے گوش گزار کرتا تھا اور جس واقعہ کو چاہتا تھا چھپا لیتا تھا۔ چنانچہ اس نے ابراہیم بن مہدی کے بغداد میں خلیفہ ہو جانے کی خبر کو بھی مامون الرشید سے پوشیدہ رکھا اور کسی کی مجال نہ ہوئی کہ مامون الرشید کو ملک عراق کی حالت سے واقف کرسکے۔ طاہر بن حسین کو فضل نے رقہ میں بطور والی متعین کر رکھا تھا۔ طاہر ایک نامور سپہ سالار تھا اور اس قابل تھا کہ اس سے عراق کی بدامنی رفع کرنے میں امداد لی جاتی مگر فضل بن سہل طاہر کو ہرثمہ کا مثنیٰ سمجھتا تھا۔ اس لیے اس کو ایک معمولی ولایت کی حکومت پر مامور و متعین رکھ کر معطل بنا رکھا تھا۔ ابراہیم بن مہدی کی نسبت مامون سے یہ کہہ دیا تھا کہ اہل بغداد نے اپنی خوشی اسی میں ظاہر کی کہ ان کے معاملات مذہبی کی نگرانی و انصرام کے لیے ابراہیم بن مہدی کو بغداد کا امیر و عامل بنایا جائے، لہٰذا ابراہیم کو بغداد کی حکومت سپرد کر دی گئی ہے۔ ادھر عراق میں بدامنی اور بے چینی دم بدم ترقی کرتی گئی اور
Flag Counter