Maktaba Wahhabi

193 - 868
باعث ہوئی۔ واثق باللہ چونکہ مجالس علمیہ کا بھی شوقین تھا، اس لیے وہ علماء و اراکین سلطنت کی مجلسوں میں بیٹھ کر گھنٹوں مذاکرات علمیہ اور روایات قدیمہ سنا کرتا تھا۔ علماء چونکہ اکثر عربی النسل لوگ تھے، انہوں نے ہارون الرشید کے زمانے کے واقعات بھی موقع پا کر سنانے شروع کیے۔ برا مکہ کے علمی ذوق اور سخاوت کی حکایتوں کے ساتھ ہی ان کے اقتدار و اختیار کے قصے اور پھر خاندان خلافت کے خلاف کی سازشوں کی کیفیت اور بربادی کے تمام واقعات مناسب اور موزوں انداز میں واثق باللہ کے گوش گزار کیے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ واثق باللہ کی کچھ آنکھیں سی کھل گئیں اور اس نے ترکی و خراسانی امراء کی نگرانی اور دیکھ بھال شروع کر دی، اکثر لوگوں پر غبن کے الزامات پایۂ ثبوت کو پہنچے اور واثق باللہ نے ان سے جرمانے وصول کرنے شروع کر دیے۔ اسی سلسلہ میں اشناس ترکی کے اختیارات بھی محدود کر دیئے اور وہ ۲۳۰ھ میں فوت ہو گیا۔ اہل عرب کے وقار کا خاتمہ: اب تک برابر سلطنت عباسیہ اہل عرب کی سیادت و عزت کے کم کرنے میں مصروف رہی تھی اور عجمیوں کو برابر فروغ حاصل ہوتا رہا تھا تاہم ملک عرب کی گہوارہ اسلام ہونے کے سبب ایک خاص عزت اور دین اسلام کے اولین خادم ہونے کی وجہ سے عربوں کا ایک خصوصی احترام ہر ایک کے قلب میں موجود تھا۔ خود خاندان خلافت ایک عربی خاندان تھا۔ اس لیے عجمیوں کو یہ خواہش کبھی نہ ہوئی تھی کہ ہم عربوں کو ذلیل کرنے کا موقع پائیں ، نہ خلفاء اب تک خراسانی و ترکی سپاہیوں کے دستوں کو عربی قبائل کی سرکوبی کیے لیے حجاز و یمن وغیرہ میں بھیجا تھا۔ بلکہ جب کبھی حجاز و یمن وغیرہ کے خالص عربی صوبوں کے انتظام کے لیے ضرورت پیش آتی تھی تو عربی یا عراقی یا شامی سپاہی بھیجے جاتے تھے۔ اس احتیاط اور اس التزام کا نتیجہ یہ تھا کہ عربوں کا گو انہیں بہت ہی کمزور کر دیا گیا تھا، ایک احترام دلوں میں باقی تھا۔ اور عربی وقار سے کسی کو انکار نہ تھا۔ اب خلیفہ واثق باللہ کے زمانے میں عربوں سے یہ چیز بھی چھن گئی۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ نواح مدینہ میں قبیلہ بنو سلیم کی ایک بڑی تعداد رہتی تھی۔ انہوں نے بنو کنانہ پر حملہ کیا اور ان کا مال و اسباب لوٹ لیا۔ اس قسم کی لوٹ مار کے واقعات عربوں میں اس وجہ سے شروع ہو گئے تھے کہ وہ اب ملک گیریوں اور فوجی خدمتوں سے بر طرف و معزول کر دیے گئے تھے اور خلفاء عباسیہ نے ان کو اپنی فوجوں سے بتدریج خارج کر دیا تھا۔ اس حالت میں عربوں کا جنگی جذبہ لوٹ مار اور ڈاکہ زنی میں تبدیل ہونے لگا تھا۔
Flag Counter