Maktaba Wahhabi

464 - 868
بڑی آسانی سے آپ اپنی آبائی خلافت اور شام و عراق و عرب وغیرہ کی حکومت عباسیوں سے واپس لے سکیں گے۔ عبدالرحمن نے اس موقع پر بڑی دانائی اور مآل اندیشی سے کام لے کر صرف اس قدر وعدہ کیا کہ اگر مجھ کو اپنے ملک کی طرف سے اطمینان حاصل ہوا تو قیصر کی امداد کر سکتا ہوں لیکن فی الحال مجھ کو اپنے ہی ملک میں بہت سے ضروری اور اہم کام درپیش ہیں ۔ پھر جواباً بہت سے قیمتی تحفے اس سفیر کے ہمراہ اپنے ایلچی یحییٰ غزال کے ہاتھ قیصر کے لیے روانہ کیے۔ امیر عبدالرحمن کی حمیت اسلامی: یحییٰ الغزال نے قسطنطنیہ میں وارد ہو کر نہایت غور و تعمق کی نگاہ سے وہاں کے حالات کا معائنہ کیا اور اپنے سلطان کی دوستی کا یقین قیصر کو دلا کر واپس ہوا۔ سلطان عبدالرحمن نے ایک مسلمان فرماں روا کے خلاف گووہ عبدالرحمن کا دشمن عباسی خلیفہ ہی کیوں نہ ہو، ایک عیسائی بادشاہ کی روپیہ یا فوج سے مدد کرنی، کسی طرح مناسب نہ سمجھی اور زبانی وعدہ و عید پر ہی ٹال دیا ورنہ عبدالرحمن قیصر کی درخواست کو پورا کرنے کی طاقت ضرور رکھتا تھا کیونکہ قیصر نے عبدالرحمن ثانی سلطان اندلس سے فوج اور روپیہ مانگا تھا۔ ایک یا چند ہزار فوج اور ایک یا چند لاکھ دینار کا بھیج دینا عبدالرحمن ثانی کے لیے بالکل معمولی بات تھی اور اندلس کی فوج یا خزانہ پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑ سکتا تھا مگر عبدالرحمن کی حمیت اسلامی نے اس کو اس کام سے باز رکھا۔ پرتگالیوں کی بغاوت: اسی سال اندلس کے جنوب و مغرب میں اس علاقے کے اندر جس کو آج کل ملک پرتگال کہا جاتا ہے اور جہاں عیسائیوں کی آبادی زیادہ تھی شہر مریدہ والوں کی سربراہی میں بغاوت کا فتنہ پیدا ہوا۔ اس فتنے کو فرو کرنے کے لیے عبیداللہ بن عبداللہ کو بھیجا گیا۔ سخت معرکوں کے بعد باغیوں کو شکست ہوئی اور شہر مریدہ کی شہر پناہ کو منہدم کر کے عبیداللہ ۲۱۰ھ میں واپس آ گیا۔ چند روز کے بعد باغیوں نے پھر سر اٹھایا اور عبداللہ کو پھر اس طرف جانا پڑا اس مرتبہ بھی بغاوت فرو ہو گئی۔ اس بغاوت کا سبب وہ پادری تھے جو جلیقیہ اور قسطلہ سے یہاں آکر بغاوت کی ترغیب دینے میں مصروف تھے۔ کیونکہ شمالی عیسائیوں بالخصوص جلیقیہ والوں کو یہ محسوس ہو چکا تھا کہ مسلمانوں کا اندرونی بغاوتوں اور آپس کی لڑائیوں میں مصروف رہنا ہی ہماری ترقی اور کامیابی کا باعث ہے اور جب تک ہم جنوبی علاقوں میں ہنگامے برپا نہ کرا دیں ۔ اس وقت تک ہم کو مسلمانوں کے خلاف کوئی کوشش اور بغاوت نہیں کرنی چاہیے۔ اہل مریدہ کی سرکشیوں اور کستاخیوں کی اب کوئی انتہا نہیں رہی تھی۔ کیونکہ انہوں نے اپے عامل کو بغاوت کر کے اپنے شہر سے نکال دیا تھا اور شاہی فوجوں کا دو مرتبہ مقابلہ کر چکے
Flag Counter