آخر واثق باللہ کے بھائی جعفر بن معتصم کو طلب کیا اور خلعت پہنا کر تخت خلافت پر بٹھایا، اور متوکل علی اللہ کا خطاب دیا، متوکل علی اللہ نے سب سے بیعت خلافت لے کر واثق کی نماز جنازہ پڑھائی اور دفن کرنے کا حکم دیا۔
واثق باللہ کو سڑک پر مقام ہاروتی میں دفن کیا گیا۔ پانچ برس نو مہینے خلافت کی اور ۳۶ برس چار مہینے کی عمر میں بتاریخ ۲۴ ذالحجہ ۳۳۲ھ بروز چہار شنبہ فوت ہوا۔ بہت مستقل مزاج اور برداشت کرنے والا شخص تھا مگر مسئلۂ خلق قرآن کے متعلق اس سے بہت زیادتیاں ہوئیں ، آخر عمر میں یہ خبط اس سے دور ہو گیا تھا۔
عبرت:
مرنے کے بعد خلیفہ واثق باللہ کو تنہا چھوڑ دیا گیا، اور تمام لوگ متوکل علی اللہ سے بیعت کرنے میں مصروف ہو گئے، اس عرصہ میں ایک سو سمار آیا اور واثق باللہ کی آنکھیں نکال کر کھا گیا۔
متوکل علی اللہ:
متوکل علی اللہ بن معتصم باللہ بن ہارون الرشید کا اصل نام جعفر اور کنیت ابو الفضل تھی۔ ۲۰۷ھ میں شجاع نامی ام ولد کے پیٹ سے پیدا ہوا اور واثق باللہ کی وفات کے بعد ۲۴ ماہ ذی الحجہ ۲۳۲ھ کو تخت نشین ہوتے ہی اس نے لشکر کو آٹھ مہینے کی تنخواہ مرحمت فرمائی، اپنے بیٹے منتصر کو حرمین یمن اور طائف کی حکومت عطا فرمائی۔
محمد بن عبدالملک کی معزولی و مرگ:
محمد بن عبدالملک بن زیات معتصم کے عہد خلافت سے وزیر اعظم چلا آتا تھا، واثق باللہ کے زمانہ میں بھی وہ اسی عہدے پر فائز رہا، متوکل علی اللہ کے عہد خلافت میں ایک مہینے تک وزیر اعظم رہنے کے بعد معزول و معتوب ہوا، تفصیل اس کی یہ ہے کہ واثق باللہ اپنے عہد خلافت میں کسی بات پر اپنے بھائی متوکل سے ناراض ہو گیا۔ متوکل وزیر اعظم محمد بن عبدالملک کے پاس گیا اور عرض کیا کہ آپ میری سفارش کر کے امیر المومنین کو خوش کر دیں ، محمد بن عبدالملک عرصہ دراز تک وزیراعظم رہنے کے سبب کسی قدر مغرور اور بد مزاج وغیر متواضع ہو گیا تھا، وہ نہایت کم التفاتی اور بد اخلاقی سے پیش آیا اور متوکل سے کہا کہ تم اپنی اصلاح کرو تو امیر المومنین خود ہی تم سے خوش ہو جائیں گے، کسی کی سفارش کی ضرورت نہیں ہے، اس کے بعد واثق باللہ سے متوکل کی شکایت بھی کر دی کہ وہ میرے پاس سفارش کی غرض سے آیا تھا، میں نے اس کے بال عورتوں کی طرح بڑھے ہوئے دیکھ کر منہ نہیں لگایا، واثق نے متوکل کو دربار میں
|