مسلمانوں کی توجہ زیادہ تر فوجی خدمات کی طرف تھی۔ دفتری اہل کاریوں کو انہوں نے عیسائیوں کے لیے چھوڑ دیا تھا۔
محمد بن عبدالرحمن کی تخت نشینی:
سلطان عبدالرحمن ثانی کے زمانے میں عیسائیوں کا اثر و اقتدار دفاتر شاہی میں بہت بڑھ گیا تھا۔ مسلمان فقہاء اس حالت کو خاموشی کے ساتھ معائنہ کر رہے تھے اور سلطان حکم کے زمانے کا تجربہ کرنے کے بعد اب خاموش تھے مگر عیسائیوں کے اس رسوخ و اقتدار نیز ان شرارتوں اور گستاخیوں کو دیکھ دیکھ کر کبیدہ خاطر ضرور تھے۔
سلطان محمد کا پہلا کام:
سلطان محمد نے جو ربیع الآخر ۲۳۸ھ میں اپنے باپ کی وفات کے بعد تخت نشین ہوا تھا تخت نشین ہوتے ہی ذمہ داری کے عہدوں پر مسلمانوں کو مامور کیا اور ان عمال و حکام کو جو اسلامی احکام و اعمال کی پابندی میں ناقص تھے معزول کیا۔ سلطان محمد کی یہ پہلی کارروائی علماء اسلام کو بہت ہی پسند آئی۔ اسی عرصہ میں اندلس کے اندر بعض علماء کے ذریعہ جو حج کی غرض سے عرب و شام کے ملکوں میں آئے تھے حنبلی مذہب داخل ہوا۔ قرطبہ کے اندر حنبلی اور مالکی مولویوں کے مباحثے اور مناظرے شروع ہوئے اور مسلمانوں کے دو گروہ ہو کر آپس میں چھری کٹاری ہونے پر مستعد ہو گئے۔ سلطان محمد بن عبدالرحمن نے اس مباحثے اور مناظرے میں خود دخل دے کر فیصلہ کیا اور اس برپا ہونے والے فتنے کو فرو کیا اس خیال سے کہ مسلمانوں کی توجہ کو دوسری جانب منعطف کر دینے سے آپس کی مخالفتوں اور خانہ جنگیوں کا خطرہ دور ہو جائے گا۔ جہاد کے لیے فوجی بھرتی شروع کی گئی اور ایک زبردست فوج تیار کر کے شمالی عیسائی ریاستوں کے خلاف مہم روانہ ہوئی۔
اس زمانہ میں ریاست ایسٹریاس، یعنی سلطنت قسطلہ کے حاکم نے اسلامی علاقے کے متعدد شہروں پر قبضہ کر لیا تھا۔ اور ہر طرف سے ہر ایک عیسائی رئیس اسلامی رقبہ کو دباتا چلا جاتا تھا۔ اس فوج نے اول شاہ اردونی والی قسطلہ کے خلاف پیش قدمی کی۔ اس فوج کی سرداری سلطان محمد نے موسیٰ بن موسیٰ کو سپرد فرمائی۔ یہ موسیٰ بن موسیٰ گاتھ قوم سے تعلق رکھتا تھا اور نو مسلم تھا۔ مثل اس کے اور بھی کئی نو مسلم شاہی فوجوں کی سرداریوں اور صوبوں کی گورنریوں پر مامور تھے۔ آخر نتیجہ اس مہم کا کچھ زیادہ مفید نہ نکلا اور معمولی معرکہ آرائیوں کے بعد اس طرف سے فوج واپس آگئی۔ اب اس فوج کو برشلونہ کی جانب بھیجا گیا کیونکہ وہاں بھی عیسائیوں نے جادئہ اطاعت سے قدم باہر رکھا تھا۔ وہاں سے بھی معمولی مال غنیمت
|